پاکستان کی سیاست ،کہانی ہے ان جاگیرداروں کی جنہوں نے 1857ء کی جنگ آزادی میں حریت پسندوں کے خون سے ہاتھ رنگے، قومی تحریکوں میں ملتِ اسلامیہ سے غداری کی، انہیں جاگیریں ،خطابات اور انعامات کیسے ملے، بدلتی حکومتوں میں کیسے قلابازیاں لگاتے رہے، پلاٹ اور قرضے کیسے حاصل کیے؟ پاکستان کا ہر چھوٹا بڑا سیاسی کارکن اور باشعور شہری ، جمہوریت کا کلمہ پڑھتا ہے لیکن جمہوریت ہے کہ اس ملک میں جڑہی نہیں پکڑ سکی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ملک جو ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں بنا وہاں عملاَ کسی چیز کا فقدان ہے تو وہ ہے جمہوریت۔ یہاں تک کہ جب یہاں ایک جمہوری حکومت برسرِ اقتدار ہوتی ہے تو اس وقت بھی جمہوری روئیے نہیں اپنائے جاتے اور جمہوری قدروں اور اصولوں کی خوب خوب مٹی پلید کی جاتی ہے۔ پھر مارشل لائ لگ جاتا ہے۔ ہم جہاں سے چلے تھے وہیں واپس آ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارا سارا سفر رائیگاں جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا ہم ایک قوم کے طور پر جمہوریت کے اہل ہی نہیں؟کیا سارا قصور فوج کا ہے جو ملک میں باربار مارشل لائ لگا دیتی ہے؟ پاکستان کی سلامتی، یکجہتی اور ترقی کے لیے اِن چھبتے سوالوں کا جواب اس قدر ضروری ہے کہ اس پر پوری سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ سوچنا ہے۔ جب تک ہمارے ملک سے جاگیردار ی اور ہماری سیاست سے جاگیرداروں کو نکال باہر نہیں کیا جاتا ، پاکستان میں جمہوریت جڑ پکڑ ہی نہیں سکتی۔ یہ نتیجہِ فکر اس اہم ترین اور انتہائی حقیقت پسندانہ نظرئیے پر مبنی ہے کہ ہر معاشرتی اور معاشی ( سوشو اکنامک) نظام اپنے لیے ایک مخصوص سیاسی نظام کوجنم دیتا ہے۔ اگر معاشرتی اور معاشی نظام کچھ اور ہو اور سیاسی نظام اس سے مماثلت نہ رکھتا ہو تو ان میں سے ایک نظام دوسرے نظام کو کھا جائے گا۔ چنانچہ ہمارے ہاں جاگیرداری نظام جمہوری نظام کو کھا جاتا ہے۔ یہ دونوں نظام ایک دوسرے کی ضد ہیں۔قیام پاکستان سے لے کر اب تک صرف چار سو خاندان اس ملک کی سیاست پر راج کرتے آئے ہیں۔ ان خاندانوں کو مزید تقسیم کر دیا جائے تو ان کی تعداد تقریبا? ایک ہزار بنتی ہے۔ آج تک یہی بے رحم ایلیٹ کلاس اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر سسکتے، بلکتے غریب عوام کو خوشحال بنانے، انہیں تین وقت کی روٹی دینے، سڑکیں، گلیاں، تعلیم اور صاف پانی فراہم کرنے کے نعرے لگاتی آئی ہے۔ پاکستان میں بدترین فوجی آمریت ہو یا جمہوریت، حکومت مسلم لیگ کی ہو یا پیپلز پارٹی کی، تحریک انصاف کی ہو یا پھر قاف لیگ کی، اسمبلیوں تک نوے فیصد انہی ایک ہزار خاندانوں کے جاگیردار، زمیندار، صنعت کار اور قبائلی سردار پہنچتے ہیں۔ پچاس کی دہائی سے لے کر آج تک تقریبا ان ایک ہزار خاندانوں کا مرکزی مقصد اپنے ذاتی مفادات، اپنے رشتہ داروں، اپنے خاندان یا پھر زیادہ سے زیادہ اپنے قبیلے یا برادری کے مفادات کا تحفظ رہا ہے۔ ایک پلڑے میں پاکستان کے نوے فیصد قانون سازوں، ایم پی ایز اور ایم این ایز کی ذاتی لینڈ کروزرز، محل نما بنگلوں، زمینوں اور جائیدادوں کو رکھیے اور دوسرے پلڑے میں پاکستان کے دو سو ملین سے زائد عوام کو ملنے والی سہولیات کو رکھیے، آپ کو فرق سے پتا چل جائے گا کہ قوم یا عوام کے مفاد میں انہوں نے کس قدر ’’جانفشانی‘‘ سے کام کیا ہے۔
اپنی ذاتی مفادات کے لیے یہ خاندانی سیاستدان کسی بھی جماعت کو چھوڑ سکتے ہیں اور کسی بھی نئے اتحاد میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ان خاندانی سیاستدانوں کو نہ تو نظریات اور نہ ہی ترقیاتی منصوبوں سے کوئی دلچسپی ہے۔ جمہوریت کے ان ٹھیکیداروں کی تمام تر ہمدردیاں متوقع مالی فوائد، ممکنہ وزارتوں، عہدوں، اقتدار اور طاقت کے ساتھ نتھی ہیں۔ یہ لوازمات جو بھی فراہم کرے گا، چاہے وہ ڈکٹیٹر ہو، اسٹیبلشمنٹ ہو یا کسی بڑی سیاسی پارٹی کا رہنما، ان کی وفاداریاں انہی کے ساتھ ہوں گی۔ یہ نعرہ ہر مرتبہ جمہور اور جمہوریت کا لگاتے ہیں لیکن عملی طور پر جمہوریت اور جمہوری اقدار ان کے جوتے کی نوک پر ہیں۔ایک طرف ایک غریب ووٹر کی بیٹی ہے، جسے زچگی کے وقت مناسب سہولیات نہیں ملتیں اور وہ جان کی بازی ہار جاتی ہے، دوسری طرف ایک سیاستدان کی بیٹی ہے، جس کے ناک کے بیوٹی آپریشن کا خرچ بھی حکومت اٹھاتی ہے۔ ایک طرف ایک ووٹر کی ٹیچر بیٹی ہے، جو کچے پکے راستوں کی دھول پھانکتے ہوئے عمر گزار دیتی ہے۔ دوسری طرف ان قانون سازوں کی وہ بیگمات، بیٹیاں، بھانجیاں اور بھتیجیاں ہیں، جن کی شاپنگ کے لیے پٹرول تک کسی بیوہ استانی کی تنخواہ کے ٹیکس سے آتا ہے۔ایک طرف سخت گرمی اور پسینے کی بدبو میں کام کرنے والے مزدوروں کے وہ بچے ہیں، جن کے مقدر میں جعلی ادویات لکھ دی گئی ہیں تو دوسری طرف ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی وہ کرپٹ اشرافیہ ہے، جس کے لیے سر درد کی دوا بھی بیرون ملک سے آتی ہے اور ان کے گھوڑوں کے علاج کے لیے بھی اسپیشلسٹ موجود ہیں۔ایک طرف غریب کے پسینے سے چلنے والی موٹے ٹائروں والی سرکاری گاڑیاں ہیں، جو سیاستدانوں کے بچوں کو ایئر کنڈیشنڈ کمروں سے نکال کر ایئر کنڈیشنڈ اسکولوں تک چھوڑتی ہیں، دوسری طرف وہ بچے ہیں جو پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ میں بسوں اور ویگنوں سے لٹک کر سرکاری اسکولوں تک پہنچتے ہیں۔اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ جاگیردار، یہ وڈیرے، یہ صنعت کار تحریک انصاف میں جا کر یا کسی دوسری جماعت کا جھنڈا لے کر راتوں رات اپنے عشروں کے مفاد پرستانہ کردار کو بدل ڈالیں گے تو یہ صرف خام خیالی ہے، دیوانے کا خواب ہے۔ یہ الیکٹ ایبلز، یہ ایک ہزار خاندانوں کے چشم و چراغ، یہ وڈیرے، یہ جاگیردار عمران خان کی جھولی میں بیٹھ کر بھی خیال اپنے مفادات کا ہی رکھیں گے۔(جاری ہے)
ایک ردالفساد ادھر بھی!
Jan 14, 2020