سائنسدانوں نے 7 ارب سال قدیم مادہ دریافت کر لیا، سورج سے قبل کے فلکیاتی نظریے کی تصدیق

 امریکی محققین کا کہنا ہے کہ جدید تکنیک کی مدد سے اُن کے لئے کرہ ارض پر موجود سب سے پرانے ٹھوس مادے کی دریافت ممکن ہوگئی ہے ۔ نیشنل اکیڈمی آف سائنسز امریکہ کے جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 5سے 7 ارب سال قبل بننے والے چٹان یا دھات کے اُس ٹکڑے پر تحقیق کی جو 50 سال قبل 1969ءمیں خلاءسے زمین پر گرا تھا۔ آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریہ کے گاوں مرچین کی زمین پر گرنے والے اس ٹکڑے کو سائنسدانوں نے فیلڈ میوزیم شکاگو میں محفوظ کر لیا تھا جہاں اُس پر تحقیقات شروع کی گئیں۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے میوزیم کے انچارج فلپ ہیک کا کہنا ہے کہ یہ ٹھوس مادے اُن ستاروں کے ذرات معلوم ہوتے ہیں جو 2 ارب سال کی مدت مکمل کر کے خلا میں ہی ٹوٹ پھوٹ گئے تھے ۔ اگرچہ اس ٹھوس مادے کی نشاندہی 1987ءمیںکر لی گئی تھی تاہم اس وقت تک اس کی عمرکا تعین نہیں ہو سکاتھا تاہم فلپ ہیک اور ان کے ساتھیوں نے حال ہی میں ان ذرات کی تاریخ معلوم کرنے کا نیا طریقہ اختیار کیا اور خوردبین کی مدد سے یہ پتا چلانے میں کامیاب ہو گئے کہ یہ دراصل سیلیکان کاربائیڈ کے ٹکڑے ہیں جو ستارے سے وجود پانے والی پہلی معدنیات ہے۔ سائسدانوں نے سیلیکون کے اِن ٹکڑوں کو سفوف کی شکل دی اور پھر انہیں تیزاب میں تحلیل کر دیا جس کے نتیجے میں صرف وہی ذرات باقی بچے جو شمسی توانائی سے پہلے سے اپنا وجود رکھتے تھے۔ ایک دہائی قبل ان میں سے صرف 20 ٹکڑوں کی تاریخ مختلف طریقوں سے معلوم ہو سکی تھی تاہم اب 4سے 5 ارب سال قدیم 40 ذرات کی عمربھی معلوم کی جا سکتی ہے۔ فلپ ہیک کے مطابق یہ عمر اس لمحے کے مساوی ہے جب پہلے ستارے ٹوٹ رہے تھے اور چونکہ اس قسم کا ستارہ دو سے اڑھائی ارب سال تک اپنا وجود رکھتا ہے ، لہٰذا یہ ستارہ سات ارب سال تک پُرانا ہوسکتا ہے۔ فلپ ہیک نے بتایا کہ یہ آج تک کے سب سے قدیم ٹھوس ذرات ہیں جن سے ہمیں کہکشاں میں موجود دیگر ستاروں کے وجود میں آنے سے متعلق آگاہی بھی ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سائنسدانوں کی اس ٹیم کی تحقیقی کاوش ہمارے سورج سے قبل کے فلکیاتی نظریے کی تصدیق کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بنیادی طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہماری کہکشاں میں ایسا وقت ضرور آیا ہوگا جب خلافِ معمول وجود میں آنے والے ستارے ٹوٹتے وقت ایک دھول کی شکل اختیار کر گئے۔

ای پیپر دی نیشن