وفاق اور سندھ کی ایک دوسرے کے خلاف سیاسی پوائنٹ سکورنگ

امین یوسف
ملک میں مہنگائی ، گیس ،بجلی ،گندم اور چینی کے بحرانوں نے پاکستان کی معیشت کو تو نقصان پہنچایا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ عوام کی قوت خرید بھی جواب دے گئی ہے۔بہت سی اشیاء ضرورت ایسی ہیں جو لوگوں کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں، گزرتے وقت کے ساتھ اس صورتحال میں بہتری کے بجائے ابتری دیکھنے میں آ رہی ہے۔ وفاق اور صوبے خصوصا سندھ ان مسائل کا مشترکہ حل تلاش کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف سیاسی پوائنٹ اسکو رنگ کرتے نظر آتے ہیں۔سیاسی جماعتیںایسی پالیسیاں بنانے میں ناکام نظر آتی ہیں جو بحرانوں کے متوقع واقعات کو روک سکتی ہوں۔پی ٹی آئی کی حکومت کا دعوی ہے کہ وہ گندم اور شوگر کے شعبوں پر حکومت کرنے والی پالیسیوں کی تنظیم نو کرنے کے ساتھ ساتھ منہگائی کے جنّ کو قابو کرنے کے لئے موثر پالیسیاں وضع کررہی ہے۔جس میںتنظیمی پالیسیاں،درست اعداد و شمار جمع کرنے ، کار ٹلائزیشن اور ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کے لئے مارکیٹ کی مضبوطی اور متعلقہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے شامل ہیں۔  وزیر اعظم عمران خان قیمتوں میں اضافے کو مصنوعی اور اپنی حکومت کے خلاف سازش قرار دے چکے ہیں۔ تاہم، ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ یہ کسی بھی حکومت کے خلاف سازش نہیں ہے بلکہ حکومت کی طرف سے خاص طور پر صوبائی اور بلدیاتی سطح پر بدانتظامی ہے۔ قیمتوں میں اضافے متعدد معاشی عوامل کا نتیجہ ہے، جس کی بنیادی وجوہات گیس اور بجلی، پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ، زرعی پیداوار اور روپے کی قدر میں کمی بتائی جاتی ہے۔ سرکاری مشینری کی مدد سے اجناس کی قیمتوں میں اضافے میں بھی ذخیرہ اندوز افراد اور مافیاز کا کردار ہے۔ چینی اور گندم کی قیمتوں میں اضافہ اس کی ایک مثال ہے۔سندھ اور پنجاب میں محکمہ فوڈ ڈپارٹمنٹ گندم اور آٹے کی طرح اشیائے ضروریہ کی آسانی سے فراہمی یقینی بنانے میں ناکام رہا ہے۔ سندھ میں فلور ملز کو شکایت ہے کہ اجناس کے تاجر قیمتوں میں ہیرا پھیری کے لئے گندم جمع کر رہے ہیں۔سندھ میں گیس کے موجودہ  بحران پر تو سندھ کے وزیراعلی ٰ سید مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت کے اتحادیوں جی ڈی اے اور ایم کیوایم سے یہ مطالبہ تک کردیا کہ وہ عوامی مسائل پر وفاقی کابینہ سے نکلیں اور سندھ کے لوگوں کا ساتھ دیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ سندھ کے لوگوں کیساتھ کھڑے ہونے میں قربانی دینا پڑتی ہے۔انہوں نے وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا اور کہا کہ اس نے صنعتکاروں کی حالت خراب کردی ہے۔ سندھ میںگیس موجود ہے اور انکا حق ہے ان کی صنعتوں کو گیس دی جائے مگر پھر بھی نہیں دی جارہی۔ گیس پر سندھ کے لوگوں کا پہلا حق ہے۔وزیر اعلیٰ کا موقف تھاکہ ہم نے سندھ کے لئے 1600ایم ایم سی ایف ڈی گیس مانگی ہے اس ضمن میں انہوں نے آئین کے آرٹیکل 158کاحوالہ دیا اور کہا کہ وفاقی حکومت کی پالیسیاں قانون کے مطابق نہیںہیں۔سندھ میںگیس کے بحران پرکراچی کے تمام صنعتی زون کی نمائندہ تنظیم کراچی انڈسٹریل فورم نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ندیم بابر کو گیس بحران کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے گیس کی عدم دستیابی کو کراچی دشمنی قرار دیدیااور آئندہ ہفتے گیس کمپنی کے دفتر کے سامنے احتجاج کرنے کی دھمکی دی ہے ۔گھریلو و صنعتی صارفین کو گیس کی عدم فراہمی کے خلاف ساتوں صنعتی انجمنوں کے نمائندہ کراچی انڈسٹریل فورم نے ملک بھر میں گیس کی موجودہ قلت صرف بد انتظامی کا نتیجہ قرار دیااور کہا کہ ایس ایس جی سی برآمدکنندگان کو کیپٹیو پاور پلانٹس کے لیے گیس فراہم کررہی ہے لیکن اس کے باعث غیر برآمدی صنعتیں متاثر ہورہی ہیں،موجود حکومت نے بروقت ایل این جی درآمد نہیں کی، اگر ہم نے موجودہ مشیر پیٹرولیم کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس کا بھی خمیازہ صنعتوں کو ہی بھگتنا پڑے گااورمسئلہ کم ہونے کے بجائے اگلے سال تک حل نہیں ہوگا ۔کراچی انڈسٹریل فورم نے یہ دعویٰ کیا کہ گیس کی قیمت بڑھاتے وقت اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ گیس مسلسل ملتی رہے گی ۔ ایکسپورٹ انڈسٹریز نے حکومت سے درخواست کی کہ اکتوبر سے فروری تک گیس کی قیمتیں کم کی جائیں مگر ایسا نہیں ہوا،930 روپے فی ایم ایم بی ٹی کی قیمت پر ایکسپورٹ انڈسٹریز کو گیس مل رہی ہے،مگر اب نان ایکسپورٹ انڈسٹریز کے کپٹیو پاور کو گیس بند کردی گئی،فارما، فوڈ سپلائی، ایکسپورٹرز کے خام مال کی انڈسٹریز سمیت دیگر کوگیس بند کردی گئی ہے،ایسی صورتحال سے ایکسپورٹ متاثر ہورہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کی صنعتیں بند کرنے کی سازش کی جارہی ہے،کراچی کے صنعتکاروں نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں کہاتھاکہ گیس کے مسائل کو دیکھیں کیونکہ انہیںٹیرف ریٹ بڑھاکر بھی گیس نہیں مل رہی ، سندھ کے وسائل کے مطابق صوبے کی انڈسٹریز کو گیس سپلائی دی جائے اگروفاقی حکومت نے یہ مسئلہ حل نہ کیا تو کراچی کے تاجر و صنعتکار آئندہ ہفتے ایس ایس جی سی کے دفتر پر دھرنا دینگے۔

ای پیپر دی نیشن