لاہور (اکرم چودھری) رواں سال چینی کی گذشتہ برس کی نسبت 10سے 12 لاکھ میٹرک ٹن زیادہ پیداوار کا امکان ہے۔ چینی کی ضرورت سے زیادہ ممکنہ پیداوار کو دیکھتے ہوئے شوگر مل مالکان اور سیاسی مافیاز نے حکومت کو ناکام بنانے کے لیے سازشیں شروع کر دی ہیں۔ گذشتہ برس ملک میں ساڑھے اڑتالیس لاکھ میٹرک ٹن چینی پیدا ہوئی تھی جب کہ رواں سال باون سے اٹھاون سے لاکھ میٹرک ٹن چینی کی پیداوار کا امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سالانہ ضرورت باون سے پچپن لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ گذشتہ برس ساڑھے اڑتالیس لاکھ میٹرک ٹن پیداوار کے ساتھ لگ بھگ تین لاکھ میٹرک ٹن کا کیری اوور بھی تھا جبکہ حکومت نے تین لاکھ میٹرک ٹن چینی امپورٹ بھی کی تھی۔ گذشتہ برس ملک میں لگ بھگ چون لاکھ میٹرک ٹن چینی استعمال ہوئی ہے۔ ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اپنی ضرورت سے زیادہ چینی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بہترین پیداواری صلاحیت کے باوجود ملک میں چینی کا بحران کیوں ہے اور حکومت کیسے اس بحران کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ حکومت کے لیے سب سے بڑی مشکل مفاد پرست شوگر مل مالکان کا اتحاد ہے جبکہ اس سے بھی بڑا مسئلہ سیاسی مافیاز کا اتحاد ہے۔ حکومت رواں برس آٹا اور چینی بحران سے صرف بہتر حکمت عملی کے ذریعے ہی نمٹ سکتی ہے۔ اگر حکومت مصنوعی غذائی قلت سے بچنا چاہتی ہے تو فوراً چینی کی امپورٹ کا اعلان کرے۔ اس سلسلہ میں امپورٹ کی کوئی حد مقرر نہیں کی جانی چاہیے جبکہ امپورٹر کو ٹیکس کے معاملے میں رعایت دی جائے۔ چینی کی فوری امپورٹ سے ملک بھر میں قیمتیں گر جائیں گی اور چینی ساٹھ سے پینسٹھ روپے فی کلو باآسانی دستیاب ہو گی۔ فوری امپورٹ سے شوگر ملز مالکان ذخیرہ کی ہوئی چینی نکالنے پر مجبور ہوں گے۔ رواں برس غذائی بحران سے بچنے کے لیے حکومت کو ایران اور افغانستان چینی اور گندم کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ چینی اور آٹے کی مناسب قیمتوں پر بلاتعطل فراہمی کے لیے حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنا ہو گی۔ اگر حکومت انتظامی طور پر بہتر فیصلے کرنے میں ناکام رہی تو گذشتہ برس کی نسبت ناصرف بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ اس غذائی بحران کی آڑ میں عوامی جذبات کو بھڑکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔