بھارت میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے لئے نت نئے حربے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ ’لو جہاد‘ کے بعد ایک اور حملہ کیا گیا ہے جبکہ مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ و غیر منصفانہ سلوک کے واقعات میں بھی آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ مدھیہ پردیش اور دیگر ریاستوں (صوبے) جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہاں مسلمان دشمن قانون سازی کا سلسلہ جاری ہے جبکہ دارالحکومت دہلی کے 104وارڈز میں بھی واقع دکانوں اور ریسٹورنٹس کو اس امر کا پابندبنایا گیا ہے کہ ’یہاں حلال گوشت دستیاب نہیں‘ کے بورڈ آویزاں کریں۔ اگرچہ اسے آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم بی جے پی کی جانب سے لوگوں کے لقموں تک پرکنٹرول کے مترادف سمجھا جارہا ہے تاہم مسلمانوں نے اس پراعتراض نہیں کیا بلکہ کہا ہے کہ وہ حرام گوشت سے اجتناب کر سکیں گے۔ آر ایس ایس کے مسلمانوں کے خلاف استبداد کے ایجنڈے کو پروان چڑھانے کیلئے مودی سرکار کے اقدامات کا تسلسل ہے جس کے تحت بی جے پی کی صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ہر ہفتے مسلمانوں کے خلاف اقدامات کریں ۔ چنانچہ اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں لو جہاد کے بعد ذبیحہ کیخلاف قانون اس کا شاخسانہ ہے۔
دریں اثناء بھارت میں ایگریکلچرل پروڈکٹس ایکسپورٹ اتھارٹی نے مرکزی حکومت کے اشارے پر یہ حکم جاری کیا ہے کہ بھارت سے اسلامی ممالک میں برآمد کئے جانے والے گوشت پر بھی ’حلال‘ نہیں لکھا جائے گا۔ اس حوالے سے یہ لغوبات کی گئی ہے کہ درآمدکنندگان کو حرام حلال سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ادھر آسام میں سرکار کے زیر انتظام دینی مدارس جنہیں قومی مدارس کہا جاتا ہے کو سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ میں ضم کر دیا گیا ہے جہاں مدارس کے دینی نصاب کی بجائے سیکنڈری بورڈ کا نصاب پڑھایا جائے گا جبکہ عربی اور اردو کو نصاب سے خارج کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے انگریز دور میں مسلمانوں کے دینی مدارس کو 1917 میں سرکاری گرانٹس کا سلسلہ جاری کیا گیاتھا ایک صدی سے جاری اس سلسلے کو ختم کردیاگیاہے ۔ ان مدارس کے علاوہ مسلمانوں نے کسی حکومتی امداد کے بغیر صوبے میں جو 600 مدارس قائم کئے ہیں ان پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ بی جے پی کے وزیر تعلیم یسوا شرما نے چال چلی اور قومی مدارس کے اساتذہ کی یونین کو بی جے پی میں ضم کر دیا ہے اور ان کو ساڑھے چار سو کروڑ روپے امداد ینے کا جھانسہ دیاگیا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020ء میں عربی اور اردو کو پورے ملک کے نصاب سے نکال کر اختیاری مضمون قرار دیا گیا ہے جبکہ عربی اساتذہ کیلئے کوئی فنڈ نہیں رکھا گیا۔
اتر پردیش کے شہر ’بلند شہر‘ میں سڑک کے کنارے جوتے چپل فروخت کرنے والے مسلمان تاجر کو اونچی ذات کے ہندوؤں کی توہین کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ دیشال نامی ایک ہندو نے پریس میں شکایت کی کہ جوتے پر ’ٹھاکر شوز‘ کے الفاظ سے اونچی ذات کے ہندو ٹھاکروں کی توہین کی گئی ہے۔ حالانکہ یہ جوتے بنانے والی فیکٹری خود ایک ہندو ٹھاکر کی ہے اور ہندوؤں کی دکانوں پر بھی یہ شوز فروخت ہوتے ہیں۔ شہر کے قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیم نے اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ مسلمان دکاندار کی بجائے فیکٹری کے مالک ٹھاکر کو گرفتارکرنا چاہیے۔ ادھر اتر پردیش اے ٹی ایس ٹیم نے ایک بھارتی فوجی سوربھ شرما کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر کے کچھ پوچھ تاچھ کے بعد چھوڑ دیا ۔ کچھ دنوں بعد پاکستان کی آئی ایس آئی کو فوجی راز دینے کے الزام میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جاسوی جو قومی سلامتی کے حوالے سے ایک سنگین جرم ہے اس پر قومی سلامتی ایکٹ کا اطلاق نہیں کیا گیا نہ ہی جائیداد قرق کی گئی نہ ہی اس اس کا گھر مسمار کیا گیا جبکہ مسلمانوں پر گئو کشی کے 76 مقدمات اور شہریت ترمیمی قانون کے خلا ف93 مقدمات میں قومی سلامتی ایکٹ کا اطلاق کیا گیا ۔ ان کی جائیدادیں قرق اور گھر مسمار کرنے کے احکامات جاری کئے گئے۔ واضح رہے بھارت میں جاسوسی کے الزام میں جتنے فوجی اب تک گرفتار ہوئے ان میں ایک بھی مسلمان نہیں۔ ضلع بدایوں میں ایک مندر کے پجاری اور اس کے دو ساتھیوں نے پوجا کیلئے آنے والی 50 سالہ عورت سے زبردستی زیادتی کے بعد قتل کر دیا۔ پولیس پجاری کو گرفتار کرنے سے گریز کرتی رہی اور اس کے لواحقین پر دباؤ ڈالا جاتا رہا کہ وہ یہ بیان دیں کہ عورت کنویں میں گر کر ہلاک ہوئی ہے جبکہ پوسٹمارٹم رپورٹ میں تشدد اور زنا بالجبر ثابت ہوگئے ہیں۔ اتر پردیش کے شہر بریلی میں تبدیلی مذہب امتناع ایکٹ کے تحت ابرار نامی نوجوان کے خلاف تھانہ فرید پور میں دو بھائیوں منصور اور ارشاد سمیت مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا گیا لیکن تفتیش سے یہ ثابت ہوگیا کہ اس روز اس جگہ موجود ہی نہیں تھے اور ان کے موبائل فون سے بھی تصدیق ہوگئی۔ ان پر الزام لگایا گیا تھا کالج سے آنے والی لڑکی کو ڈرا دھمکا کر شادی پر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی۔ الزام غلط ثابت ہونے پر الزام لگانے والوں اور اس لڑکی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
مسلمان دشمنی کے کھلے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں دیا جاتا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر اپنے خطاب میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اس یونیورسٹی کو بھارت کا تعلیمی چہرہ اور منی انڈیا کے نام دیئے لیکن یہ سب دوغلا پن تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا مودی کی اس ستائش کے نتیجے میں اس یونیورسٹی کی ترقی میں حصہ ڈالا جاتا لیکن اس کے برعکس یونیورسٹی کیلئے غیر قانونی اقدامات کے ذریعہ مسائل پیدا کر دیئے گئے ہیں۔ پورے بھارت میں لائبریریوں کو خواہ وہ کسی نجی ادارے یا فرد کی ہوں ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے لیکن علی گڑھ میونسپل کارپوریشن کے متعصب ہندو حکام نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر بھی کئی سال کا ٹیکس عائد کر کے 14 کروڑ روپے ادائیگی کا حکم جاری کر دیا دیگر کئی ایسی چیزوں پر بھی ٹیکس کی عدم ادائیگی کا الزام لگا کر یونیورسٹی کے اکاؤنٹس منجمد کرا دیئے ہیں۔ یاد رہے صرف لائبریری پر عائد 14 کروڑ ٹیکس میں ہندو مہاجن کی طرح سود در سود کے حساب سے 8 کروڑ روپے صرف سود کی مد میں ہیں۔ یہ ہندو عصبیت کا شاندار مظاہرہ ہے کہ جہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی معاندانہ رویہ کا نشانہ ہے وہاں ہندو بنارس یونیورسٹی کسی بھی ٹیکس کے دائرہ میں نہیں آتی۔
LOVE JIHAD کے بعد دوسرا حملہ
Jan 14, 2021