نواز کھوکھر، تاجی کھوکھر اور مصطفی کھوکھر(۱)

Jan 14, 2021

اسد اللہ غالب

پل پل میں دنیا بدل رہی ہے اورقیامتوں کا ایک سماں ہے۔
اسلام آباد سے ایک فون آیا جس نے تڑپا کر رکھ دیا۔کہہ رہے تھے کہ آپ کے دوست حاجی نواز کھوکھر کی تدفین کو تین روز گزر گئے اور اس سے چند روز پہلے ان کے بھائی تاجی کھوکر بھی راہی ملک عدم ہو گئے، یہ ایک گھرانہ اجڑنے کی الم ناک خبر تھی۔ میرے توجیسے ہوش و حواس  ہی کولیپس ہو گئے۔ میں نے فوری طور پر حاجی نواز کھوکھر کے موبائل پر کال کی، خیال تھا کہ یہ فون ہماری بھابھی صاحبہ کے پاس ہو گا اور ان سے تعزیت  کر لوں مگر گھنٹی بجتی رہی اور فون پر قبرستان کی سی خاموشی طار ی رہی، پھر سینیٹر مصطفی نوازکھوکھر کو فون ملایا مگر جواب  ندارد،ظاہر ہے ان کے پا س لوگ آرہے ہوں گے جارہے ہوں گے اور فون سننے کی انہیں فرصت کہاں ہو گی ان کے والد حاجی نواز کھوکھر کی دوستیاں ایک جہان سے تھیں اور یہ جہان حاجی صاحب کی تعزیت کے لئے امڈ آیا تھااب میں اس کالم کے ذریعے اس خاندان سے اظہار تعزیت کر رہا ہوں۔
حاجی صاحب سے میرے تعلقات کی توعیت کیا تھی میں آج تک یہ نہیں سمجھ پایا کیونکہ برسوں تک میں نے ان کے ڈرائیور کے طور پر فرائض ادا کیے اور چند ماہ میںنے اپنے گھر میں ان کی میزبانی بھی کی وہ میرے گھر کیوں ٹھہرے تھے میں یہ راز بھی نہیں جانتا۔ اب جب وہ دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں تو میں کچھ باتیں منظر عام پر لا سکتا ہوں۔
حاجی صاحب سے اول اول ملاقاتیں ان دنوں ہوئیں جب وہ لاہور ہائی کورٹ میں پیشی بھگتنے آتے ، باقی اخبار نویسوں کی طرح میں بھی ہوٹل کی لابی میں ان سے ملتا اور پر تکلف ضیافت سے محظوظ ہوتا‘ وہ کورٹ میں خودہی آتے اور جاتے رہے لیکن کسی سے ملنے کے لیے جانا ہوتا تو وہ مجھے حکم کرتے ،ایک بار فیروز پور روڈ پر ظفر لاء چیمبر میں میں انہیں لے گیا۔ وہ ایس ایم ظفر صاحب سے صلاح مشورے کے لیے ان کے کمرے میں چلے گئے اور میں باہر ویٹنگ روم میں بیٹھ گیا، گرمی کا موسم تھا اور میں پسینے سے نہا رہا تھا۔ 
کوئی گھنٹے بعد ایس ایم ظفر کمرے سے باہر آئے اور کہنے لگے غالب! تم یہاں کیوں بیٹھے ہو ، میں نے کہا بس آپ کے کلائنٹ کو لے کر آیا تھا وہ فارغ ہو لیں تو انہیں واپس ہوٹل پہنچاتا ہوں، ظفر صاحب نے میرا ہاتھ تھاما اور کھینچتے ہوئے اپنے کمرے میں لے گئے وہ کہہ رہے تھے کہ آپ نے مجھے سخت شرمندہ کیا ہے۔ آپ کو حاجی صاحب کے ساتھ ہی اندر آجانا چاہئے تھا ابھی تو مزید ڈیڑھ دو گھنٹے ان سے بات ہونی ہے آپ ہمارے پاس بیٹھیں۔ایک مرتبہ انہوں نے مجھے لبرٹی چوک میں سینیٹر گلزار احمد کی رہائش گاہ پر لے جانے کے لیے کہا ،سینیٹر صاحب سے میری کئی برسوں سے گہری قربت تھی وہ گھر کے دروازے پر آئے اور ہمیں اندر لے گئے ،میں نے کہا کہ یہ گھر کی حالت کیا بنا رکھی ہے۔ ہر جگہ توڑ پھوڑ ہوئی ہے، کہنے لگے محترمہ بے نظیر بھٹو لاہور تشریف لاتی ہیں تو وہ میرے یہاں ہی قیام کرتی ہیں۔ میں اس گھر کو محترمہ کے شایان شان بنانے کے لیے اس کی تزئین  و آرائش کر رہا ہوں۔  مجھے انہوں نے ایک صوفے پر بیٹھنے کے لیے کہا اور حاجی صاحب کو سامنے لائونج میں لے گئے جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو تشریف فرما تھیں، میرا خیال ہے یہ کوئی اہم ملاقات تھی اور محترمہ بعض ایشوز پر حاجی صاحب سے مشاورت کرنا چاہتی تھیں، کچھ وقت گزرا تھا کہ ناہید خان میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ آپ یہاں سے دور جا کر بیٹھیں ۔ کیونکہ حاجی صاحب اور محترمہ کے درمیان رازداری کی باتیں ہو رہی ہیں ۔
 میں نے ناہید خان سے کہا کہ میں آپ کی پارٹی کا کوئی ورکر نہیں ہوں کہ آپ مجھے اس لہجے سے ڈانٹ ڈپٹ کرکے یہاں سے اٹھا دیں، میں ایک اخبار کا ایڈیٹر ہوں مگر مجھے ان دونوں کی کھسر پھسر سے کوئی غرض نہیں ہے ملاقات ختم ہوگئی تو میں حاجی صاحب کو یہاں سے لے جائوں گا اور اگر میں چاہوں کہ انہوں نے یہاں پر کیا باتیں کیں تو میں ان سے پوچھ بھی سکتا ہوں۔
میںکبھی اسلام آباد جاتا تو چوہدری قدرت اللہ ،تنویر قیصر شاہد۔ اپنے بیٹے عمار چوہدری اور ان کے کزن شبیر عثمانی کو بھی ساتھ لے جاتا ، ہم چھ سو روپے کا کرائے پر ایک کمرہ لیتے اور کمرے میں دو بیڈ ہوتے اور باقی لوگوں کے لیے دو دو سو روپے کے حساب سے گدے لے لیتے ۔حاجی نواز کھوکھر صاحب کو اطلاع ہوتی کہ ہم آئے ہیں تو وہ ہمیں گھر مدعو کرتے اور انواع و اقسام  کے کھانوں سے تو اوضع فرماتے، دو مرتبہ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی کھانے پر مدعو کیا ،اس محدود سی محفل میں وہ ہم لوگوں کو بھی بلا لیتے۔حاجی صاحب کا ڈرائینگ روم انتہائی پر تکلف تھا ، انہوں نے کوئی نجی بات کرنا ہوتی تو محترمہ کے ساتھ ایک کونے میں جا بیٹھتے مگر کھانے کے وقت ہم سب ایک ساتھ ہی ٹیبل پر بیٹھتے، انہی ملاقاتوں کے دوران میری ملاقات مصطفی نواز کھوکھر سے ہوئی وہ ان دنوں گول گپا سا بچہ تھا ، اور میرے بیٹے عمار چوہدری اور شبیر عثمانی کو وہ گاڑی میں بٹھاتا اور وہ اسلام آباد کی سیر کو نکل جاتے،  واپس آتے تومیں محسوس کرتا کہ ان کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے ہے اور وہ ہانپ کانپ رہے ہیں ، میں پوچھتا کہ کیا ہوا ،گھبرائے سے کیوں ہو ،  وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بتاتے کہ خدا کی پناہ! مصطفی نواز نے  بڑی خطر ناک ڈرائیونگ کی ہے۔
اب قصہ رہ گیا حاجی صاحب کے میرے یہاں  چند ماہ قیام کا اور میری حقیر میزبانی کا تو میں یہ راز بھی کھولے دیتا ہوں مگر انشاء اللہ اگلے کالم میں۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں