درد بنتا ہے فغاں اور جلن بڑھتی ہے
رات ہوتی ہے تو ماتھے کی شکن بڑھتی ہے
تیری تصویر کسی اور کے پہلو میں رکھی
دیکھ لیتی ہوں جہاں ، دل میں چبھن بڑھتی ہے
عمر کے پیڑ سے گرتے ہیں پرانے پتے
سانس لیتی ہے خزاں ، سوے چمن بڑھتی ہے
زخم دے کوئی شناسا تو لگے یوں جیسے
آگ سی ایک سرِروح و بدن بڑھتی ہے
رنج ہوتا ہے کء اور بھی باتوں کا مگر
اس رقابت کی ذرا اور اگن بڑھتی ہے
سرخ آنکھوں کی کہانی میں فقط اشک نہیں
ہجر ہے کڑوا دھواں، جس سے دکھن بڑھتی ہے
ڈال آئی ہوں جہاں گردِ زمانہ، سکھیو
وہاں اس جہد سے توقیر ِوطن بڑھتی ہے
جاں نکلتی ہے ترے لفظ اگر یاد کروں
جسم کو چھوتی ہوئی سیلی پون بڑھتی ہے
رات کا خیمہ محبت سے سجانے کے لئے
چاند آ جائے جہاں، کوئی کرن بڑھتی ہے
اشک ہیں یا ہیں مزاروں پہ سرِشام چراغ
کون ہے شازیہ اکبر کہ لگن بڑھتی ہے
(شازیہ اکبر)