تین صوبوں سندھ، پنجاب اور سرحد کو منسلک کرنے والی اہم شاہراہ انڈس ہائی وے کوقومی شاہراہ 55 یا پھراین 55 کہا جاتا ہے اسے دریائے سندھ کے مشرقی کناروں پر واقع این-5 پر دباؤ کو کم کرنے اور کراچی اور پشاور کے درمیان ایک مختصر اور متبادل راستہ اختیار کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔جنوبی پنجاب سے گزرنے والی یہ اہم سڑک بھاری بھرکم ٹریفک کی گزر گاہ بن چکی ہیسوات منگورہ، کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے لاہور راولپنڈی، اسلام آباداور پھر کراچی سے پشاور تک بے ہنگم ٹریفک کی بھر مار ہے ون وے نہ ہونے کی وجہ سے قیمتی معصوم جانوں کا ضیاع روزانہ کا معمول بن چکا ہے آئے روز انڈس ہائی پر ڈیرہ غازی خان سے لیکر کشمور تک حادثات کی خبریں سنی جاتی ہیں اس وجہ سے اسے قاتل روڈ کے نام سے لکھا اور پکارا جاتا ہے ریسکیو1122کے اعدادو شمار کے مطابق اس روڈ پر ہر سال حادثات کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے ضلع راجن پور کی حدود میں سال 2020 میں انڈس ہائی وے روڈ ڈبل نہ ہونے کی وجہ سے 3013 حادثات میں 255 افراد جان سے گئے 12465 افراد کو اسپتالوں میں شفٹ کیا گیا جبکہ 3770 افراد موقع پر طبعی امداد فراہم کی گئی سینکڑوں ایسے لوگ بھی ہیں جو حادثات کے نتیجے میں زندگی بھر کیلئے معذور ہوئے شہریوں کا کہنا ہے کہ حادثات کی بڑی وجہ سنگل روڈ کا ہونا ہے انڈس ہائی وے روڈ صرف کاغذوں میں بن رہا ہے لیکن عملی طور پر کسی قسم کا کام نہیں ہو رہا ہے مگر حکومتی سائیڈ سے بتایا جاتا رہا ہے کہ ڈیرہ غازیخان اور راجن پور اضلاع کو ملانے والی انڈس ہائی وے کو چار رویہ اورڈیرہ اسماعیل خان تا ڈیرہ غازیخان سیکشن کو دو رویہ کرنے کی منظوری دی جا چکی ہے ایشئین ڈویلپمنٹ بنک کے تعاون سے 329کلومیٹر روڈ کی تعمیر ، توسیع پر 260ملین امریکی ڈالرز کا ابتدائی تخمینہ لگایاگیاتھا پلاننگ ڈویڑن سے منظوری کے بعد پراجیکٹ کا پی سی ون اور فائنل ڈیزائن تیار کرنے کی خبریں گردش کرتی رہی ہیں وفاقی وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل نے کئی موقعوں پرکہاکہ مرحلہ وار انڈس ہائی وے کو دو رویہ کیاجائے گا پراجیکٹ میں آنے والی 20پلوں کے علاوہ تمام آبی گزرگاہوں کی دوبارہ تعمیر و توسیع کی جائے گی منصوبے کا 280کلومیٹر حصہ پنجاب جبکہ 50کلومیٹر خیبرپختونخواہ میں ہو گامزید برآں این ایچ اے اور وزارت مواصلات کے افسران قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے مواصلات کے سامنے کہہ چکے ہیں کہ 2023 ء تک انڈس ہائی وے کو مکمل طور پر دورویہ کر دیا جائے گاان اعلانات کے باوجود ابھی تک ایسے اقدامات کہیں نظر نہیں آتے جس سے عوام کو یقین ہو کہ انڈس ہائی وے 2023 تک بن جائے گی راجن پور کے مظلوم عوام روزانہ اس قاتل روڈ سے نعشیں اٹھا رہے ہیں بعض اوقات شدید حادثات میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ کو اپنے پیاروں کی نعشوں کو گٹھڑیوں میں باندھ کر گھر لے جانا پڑتا ہے۔راجن پور ایسا ضلع ہے جہاں پہاڑ ،دریا اور سر سبز میدان ہیں مگر بد قسمتی سے یہ ضلع ہمیشہ قدرتی آفات کا شکار رہتا ہے بنیادی طور پر یہاں کے لوگوں کا انحصار زراعت سے وابستہ ہے یہاں کے پہاڑوں پر ہونے والی بارشیں ہر سال وسیع و عریض رقبے پر کاشتہ فصلوں کو تہس و نہس کر دیتی ہیں دریاؤں میں سیلاب آنے سے کچے کے علاقوں میں کاشتہ لاکھوں ایکڑ فصلیں سیلابی پانی کی نذر ہو جاتی ہیں۔یہاں کے حکمران خاندان صدر ،وزیر اعظم جیسے عہدوں پر فائز رہے ہیں موجودہ حکومت میں5 ایم پی اے۔3۔ایم این اے۔دو وزیر ایک ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی ایک چئیرمین اسٹیڈنگ کمیٹی لوکل گورنمنٹ ایک چیرمین ڈونر ایجیسیز پروجیکٹ ہیں ضلع راجن پور کے تین تمندار خاندان مکمل طور پر اقتدار کا حصہ ہیں وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کا تعلق بھی اس علاقے سے ہے مگر کوئی بھی ایسا مسیحا نہیں جو یہاں کے 70 فیصد سے بھی زیادہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کے حقیقی مسائل حل کرے یہاں کے ارکان اسمبلی کی کارکردگی کی لسٹ میں گلیوں اور نالیوں کی تعمیر و مرمت کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتاکبھی بھی جان و مال کے تحفظ کیلئے منصوبہ جات منظور نہیں کروائے گئے اگرچہ انڈس ہائی وے کو ون وے کرنے کی خبریں کئی بار دی جا چکی ہیں مگر نجانے اس پر عملدرآمد کب ہو گا دوسری طرف ہر دن گزرنے کے بعد حادثات کی شرح میں اضافہ تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے احتجاج کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے یہاں کے لوگ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے اپنے نمائندوں سے ملتمس ہیں کہ انڈس ہائی وے کے منصوبے پر جلد عملدرآمد شروع کرائیں تاکہ روزانہ اس سڑک سے نعشوں کو اٹھانے کا سلسلہ روکا جا سکے۔
٭٭٭٭٭