بھارتی ریاست اتر پردیش میں گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران ایک اور وزیر نے حکمران بی جے پی چھوڑنے کا اعلان کردیا جبکہ بی جے پی کے پانچ ارکان اسمبلی پہلے ہی پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اترپردیش کے گیارہ اضلاع کی 58 نشستوں پر 10 فروری کو انتخابات ہونے جا رہے ہیں تاہم اس سے قبل ہی ارکان اسمبلی کے ایک سے دوسری پارٹی میں جانے اور روٹھنے منانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مودی سرکار کی نفرت آمیز‘ متعصبانہ اور اقلیت مخالف گندی سیاست اور آمرانہ پالیسیوں کے باعث حکمران بی جے پی میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوا ہے۔ تازہ استعفیٰ ریاست اترپردیش کے وزیر محنت سوامی پرساد موریا کا آیا ہے جنہوں نے سماج وادی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور بی جے پی پر دلتوں کو نظرانداز کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اس سے قبل حکمران بی جے پی کے ارکان اسمبلی روشن لال ورما‘ برجیش پراجا پتی اور بھگوتی ساگر نے حکمران بی جے پی سے اپنی راہیں جدا کی ہیں۔
ویسے تو کانگرس سمیت بھارت کی تمام جماعتیں مسلم دشمنی اور ہندوتوا کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں جنہوں نے بھارتی اقلیتوں کیخلاف انتہاء پسندی والا رویہ اختیار کرکے بھارت کے سیکولر چہرے کو داغدار کیا ہے تاہم حکمران بی جے پی جو پاکستان اور مسلم دشمنی کو انتہاء تک پہنچا کر دوسری بار اقتدار میں آئی ہے‘ بھارت کو ہندو انتہاء پسند ریاست میں تبدیل کرنے کے ایجنڈے پر گامزن ہے اور بی جے پی کی قیادت کی جانب سے نریندر مودی کو بھی انکی ہندو انتہاء پسندانہ سوچ کی بنیاد پر ہی دوسری بار وزارت عظمیٰ کے منصب کیلئے نامزد کیا گیا کیونکہ وہ پاکستان دشمنی کا 1971ء کی جنگ سے ہی ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیں جس کے دوران انہوں نے مکتی باہنی کے ایک جنونی کارکن کی حیثیت سے اسکی پاکستان توڑو تحریک میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ اس تناظر میں مودی سرکار کی جانب سے مسئلہ کشمیر مزید گھمبیر بنانا اور پاکستان کے ساتھ جنگ کی فضا گرمانا بعیداز قیاس ہرگز نہیں تھا۔ انہوں نے ہندو انتہاء پسندی والے ایجنڈے پر کاربند رہتے ہوئے مسلمانوں اور سکھوں سمیت تمام اقلیتوں کی شہریت مشکوک بنانے کی سازش کی جبکہ اپنے ناجائز زیرقبضہ کشمیر کو مستقل ہڑپ کرنے کیلئے اس پر پانچ اگست 2019ء کو شب خون مارا اور اسکی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی۔ مودی سرکار کے ان اقدامات کے باعث ہی بھارتی اقلیتیں خود کو غیرمحفوظ سمجھتی ہیں اور کشمیری مسلمانوں کے علاوہ بھارتی سکھوں نے بھی اندرون و بیرون ملک خالصتان کی تحریک شروع کر رکھی ہے جبکہ کشمیری عوام نے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم پر پوری دنیا کو متحرک کر دیا ہے۔ اس وقت بھارت کے اندر سے بھی مودی سرکار کیخلاف ہر طبقہ فکر کی جانب سے بھرپور آوازیں اٹھ رہی ہیں اور بھارت کے سابق فوجی حکام اور بیوروکریٹس بھی مودی سرکار کو مراسلات بھجوا کر مقبوضہ وادی میں اسکے ننگ انسانیت اقدامات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں مودی سرکار کی آئندہ انتخابات میں کامیابی کا تو قطعاً کوئی امکان نظر نہیں آتا تاہم یہ خدشہ ضرور لاحق ہے کہ اپنے اقتدار کے آخری مراحل میں مودی سرکار اپنی جنونیت میں کہیں پاکستان بھارت جنگ کی نوبت نہ لے آئے جو بہرحال ایٹمی جنگ ہوگی جس سے علاقائی اور عالمی امن برقرار نہیں رہ پائے گا۔ عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو مودی سرکار کے پیدا کردہ ان حالات کی سنگینی کا بہرصورت مکمل ادراک ہونا چاہیے۔
حکمران بی جے پی کو پے در پے جھٹکے
Jan 14, 2022