پاکستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے ان سے نمٹنے اور نکلنے کا طریقہ یہی ہے کہ ریاست کے تمام اہم ادارے پالیسیوں کی تشکیل اور نفاذ کے حوالے سے نہ صرف متفق ہوں بلکہ جہاں ضرورت ہو ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کریں۔ امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے اچانک انخلاء نے پاکستان کے مسائل میں اضافہ کردیا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران افغانستان میں امریکا کے قیام کے لیے پاکستان کی طرف سے کیے گئے تعاون کو سامنے رکھتے ہوئے امریکا کو چاہیے تھا کہ وہ انخلاء کے فیصلے سے متعلق نہ صرف پاکستان کو اعتماد میں لیتا بلکہ اس پر اس انداز میں عمل کرتا کہ پاکستان کے لیے مزید مسائل نہ پیدا ہوتے۔ امریکا کی ایسی ہی پالیسیوں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان فاصلے کم نہیں ہوتے۔ ایک طرف امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء نے افغانستان میں عدم استحکام کو جنم دیا تو دوسری جانب امریکا نے طالبان کی عبوری حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے نہ صرف اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا بلکہ افغانستان کے اثاثے منجمد کر کے ان کے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا۔
اس صورتحال میں پاکستان کا بوجھ بھی بڑھ گیا ہے۔ پاکستان پہلے ہی گزشتہ چار دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دیے ہوئے ہے اور ان پر ملکی وسائل کا قابلِ ذکر حصہ خرچ کررہا ہے۔ چار دہائیاں پہلے والی صورتحال بھی امریکا کی وجہ سے ہی پیدا ہوئی تھی۔ نئی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مختلف عالمی ادارے اور ممالک افغانستان سے تعاون کررہے ہیں اور پاکستان کے راستے اپنی امداد افغانستان تک پہنچا رہے ہیں۔ اس سب کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ افغانستان میں معاملات اس حد تک بگاڑ کا شکار نہ ہو جائیں کہ وہاں کوئی بڑا انسانی المیہ جنم لے لے۔ اس صورتحال میں پاکستانی حکومت اور سکیورٹی ادارے ملکی سلامتی کے حوالے سے بھی پہلے سے زیادہ چوکنا ہوگئے ہیں۔ بدھ کو وزیراعظم عمران خان نے اسی صورتحال کے تناظر میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے مرکزی دفتر کا دورہ کیا۔ اس موقع پر اہم وزراء بھی ان کے ہمراہ تھے اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی موجود تھے۔
وزیراعظم کے آئی ایس آئی سیکرٹریٹ کے دورہ کے موقع پر انھیں ملکی سلامتی اور افغانستان کی حالیہ صورتحال کے تناظر میں خطے میں درپیش تبدیلیوں پر بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ کے بعد، اجلاس کے شرکاء نے افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے تبادلۂ خیال بھی کیا۔ اس اجلاس کا ایک مقصد پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے معاملے پر افغان حکومت کے ساتھ پیدا ہونے والے مسائل کو زیر غور لانا بھی تھا۔ عمران خان نے قومی سلامتی، استحکام اور خوشحالی کے لیے آئی ایس آئی کی کوششوں کو سراہا اور پاکستان کے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے کی جانے والی پیشہ ورانہ تیاریوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اس سے پہلے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں عمران خان آئی ایس آئی سے باقاعدگی سے سکیورٹی بریفنگ لیتے رہے ہیں لیکن لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کے بطور ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیراعظم کا آئی ایس آئی سیکرٹریٹ کا یہ پہلا دورہ تھا۔
علاوہ ازیں، وزیر اعظم سے پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر نے ملاقات کی۔ملاقات میں ملک کی فضائی حدود کے دفاع سے متعلق پیشہ ورانہ امور پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ عمران خان نے پاک فضائیہ کی پیشہ ورانہ اور آپریشنل صلاحیتوں کو سراہا اور کہا کہ پاکستان ایئر فورس نے فضائی دفاع کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور حکومت ایئر فورس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے تمام تر وسائل فراہم کرے گی۔ ایئر چیف نے پاک فضائیہ کے موجودہ آپریشن اور تربیتی امور کے بارے میں وزیر اعظم کو آگاہ کیا۔
سیاسی اور عسکری قیادت کا مختلف امور کے حوالے سے تبادلۂ خیالات اور اتفاق خوش آئند ہے۔ اس سے نہ صرف ملک کو درپیش بیرونی مسائل سے نمٹنے میں مدد ملے گی بلکہ اندرونی مسائل کے حل کے لیے بھی راستہ ہموار ہوگا۔ یہ بھی ایک اچھی بات ہے کہ عالمی ادارے افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالے سے صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کے مسائل کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان کی سنجیدہ کاوشوں کی تعریف کرنے کے ساتھ ساتھ اسے تعاون بھی دے رہے ہیں۔ اسی تناظر میں اقوام متحدہ نے افغانستان کی بحالی اور استحکام کے لیے بین الاقوامی برادری سے پانچ ارب ڈالرز کی اپیل کی ہے جس کا عمران خان نے خیر مقدم کیا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی یہ اپیل پاکستان کی جانب سے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کے افغانستان سے متعلق خصوصی اجلاس کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے سماجی رابطے کی ویب گاہ ٹوئٹر پر لکھا کہ میں بین الاقوامی برادری سے افغانستان میں انسانی المیے کو روکنے کے لیے اسی نوعیت کی اپیل کرتا رہا ہوں۔ پاکستان کو اہم ممالک کے ساتھ مل کر کوشش کرنی چاہیے کہ امریکا افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرے تاکہ وہاں جلد از جلد امن و استحکام کا قیام ممکن ہوسکے۔ اس سے جہاں افغان عوام کو فائدہ پہنچے گا وہیں پاکستان کا بوجھ بھی کم ہوگا۔