معززقارئین ! مَیں اپنے کالموں میں نئی نسل کو بتانا ضروری سمجھتا ہُوں کہ ’’ مَیں نے 1956ء میں شاعری شروع کی جب ، مَیں نے میٹرک پاس کِیا تھا اور 1960ء میں مسلک صحافت اختیار کِیا تھا جب، مَیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ’’ بی اے فائنل ‘‘ کا طالبعلم تھا۔
1973ء سے 2016ء تک مجھے پاکستان کے کئی صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اور پھر امریکہ اور برطانیہ میں مقیم میرے چار بیٹوں کی دعوت پر کئی ملکوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا ہے، پھر مختلف عارضوں کے باعث مَیں اپنے بیٹوں اور اُن کے اہل و عیال سے ملاقات کے لئے نہیں جا سکاتووہ خود آجاتے ہیں ۔ مَیں نے کئی ٹھنڈے ٹھار ملکوں کے دورے کئے ہیں اورجو ٹھنڈے ٹھار نہیں تھے وہاں بھی مجھے موسم سرما میں جانے کا موقع ملا ۔
میرے پیارے پاکستان سے مجھے بہت محبت ہے اور مجھے کئی بڑے بڑے شہروں میں مہمان یا سیا ح کے طور پر جانے کا موقع ملا ۔ ملکۂ کوہسار مری سے مجھے بہت محبت بلکہ عقیدت ہے۔ بلوچ قبائل میں سب سے بڑا اور اہم قبیلہ ’’گوت‘‘ (sub-caste) کے لحاظ سے ’’ مری ‘‘ کہلاتا ہے۔
1851ء میںانگریز حکومت نے پنجاب کے ضلع راولپنڈی کے صحت افزامقام ( راولپنڈی شہر سے 39 کلو میٹر دور ) ’’مری ‘‘ کے علاقہ (اب تحصیل ) کو سیاحوں کے لئے ہر لحاظ سے مناسب قرار دے کر یہاں ہسپتال بنایا اور کئی سکول اور جدید طرز کے ہوٹل تعمیر کئے پھریہاں باقاعدہ لوگ آباد ہوتے گئے۔
’’ امام بری سرکار ! ‘‘
معزز قارئین ! مَیں ’’ ملکۂ کوہسار مری ‘‘ سے پہلے قادریہ سلسلہ کے ولی حضرت سیّد عبداُلطیف کاظمی القادری المعروف امام بری سرکار کا تذکرہ کروں گا ۔
حضرت امام بری 1617ء کو ضلع چکوال کے موضع کرسال میں پیدا ہُوئے تھے ۔ آپ کے والد ِ محترم کا نام سیّد سخی محمود شاہ تھا۔ آپ کا وِصال 1750ء کو نور پور تھل میں ہُوا جو اُس کے بعد نور پور شاہاں کہلانے لگا ۔ اُسی مقام پر حضرت بری سرکار کی بارگاہ قائم ہے اور آپ کو اسلام آباد کا سرپرست ، ولی (Saint) کہا جاتا ہے ۔
’’ بارگاہِ بری سرکار میں ! ‘‘
معزز قارئین ! روزنامہ ’’ تاجر ‘‘ راولپنڈی کے ایڈیٹر کی حیثیت سے مَیں ’’ اپنی مدد آپ کے تحت ‘‘ ایک دِن حضرت سیّد عبداُلطیف کاظمی القادری المعروف امام بری سرکار کی بارگاہ میں پہنچ گیا تھا اور 10 ماہ کے دَوران مَیں چار بار گیا، پھر 1973ء میں مَیں نے جب ، لاہور اور اسلام آباد سے روزنامہ ’’ سیاست‘‘ جاری کِیا تو ، بار بار ۔
26 نومبر 2009ء کو ، میری سب سے پیاری بیٹی عاصمہ کی شادی میرے دوست چودھری محمد ریاض اخترکے بیٹے معظم ریاض چودھری کے ساتھ ہُوئی تو مَیں اپنے داماد کے ساتھ یہ ثواب حاصل کر تا رہا۔ کئی بار میر ی بیٹی اور میرا نواسہ علی امام بھی میرے ساتھ ہوتے تھے۔
’’ جناب فاروق احمد عثمانی! ‘‘
معزز قارئین ! سرگودھا میں مختلف قومی اخبارات کے نامہ نگار اور ضلع سرگودھا کے کئی ہفت روزہ اور ایک روزنامہ ’’ہلال پاکستان‘‘ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے فرائض انجام دینے کے بعد مجھے لاہور میں میرے صحافی دوست علی محمد جمال (مرحوم) کی معرفت میری راولپنڈی کے روزنامہ ’’ تاجر‘‘ کے چیف ایڈیٹر (مالک) جناب فاروق احمد عثمانی سے کئی ملاقاتیں ہُوئیں تو وہ مجھے روزنامہ ’’ تاجر ‘‘ کا نیوز ایڈیٹر بنا کر اپنے ساتھ راولپنڈی لے گئے اور اپنے دفتر ہی میں میری رہائش کا بندوبست کردِیا۔
تین ہفتے بعد اُنہوں نے مجھے ’’ تاجر ‘‘ کا ایڈیٹر بنا دِیا مَیں وہاں 10 ماہ تک رہا۔ جناب فاروق احمد عثمانی بہت ہی نیک اور شفیق انسان تھے ۔وہ مجھے کئی بار ’’ملکۂ کوہسارمری ‘‘ سے ملوانے لے گئے ۔
’’ کوہسار ؟ ‘‘
معزز قارئین ! فارسی زبان میں ’’ پہاڑ ‘‘ کو (کوہ )کہتے ہیں اور اُبھری ہُوئی زمین کو (کوہسار)۔ کوہسار کے بارے کئی اُستاد شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں بہت کچھ کہا ہے ۔ اُستاد شاعر امانت لکھنوی کہتے ہیں کہ …
’’ عشق بتاں میں کھائی ہیں یاں سخت ٹھوکریں!
پتھر پڑیں الٰہی رہ کوہسار پر! ‘‘
…O…
بحرلکھنوی کہتے ہیں کہ …
’’ جنبش میں ، لا چکے تھے ، اُسے میرے ولولے!
مٹی پکڑ کے دہشت میں، کہسار رہ گیا!
…O…
’’ علاّمہ اقبال کی نظم ’’ہمالہ!‘‘
معزز قارئین ! مَیں دسویں جماعت میں تھا جب مَیں نے شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال کی نظم ’’ ہمالہ‘‘ پڑھی۔ جس کے صرف تین شعر پیش کر رہا ہُوں ۔ علاّمہ صاحب فرماتے ہیں …
’’اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں!
چْومتا ہے،تیری پیشانی کو، جُھک کر آسماں!
…O…
تجھ میں کْچھ پیدا نہیں ، دیرینہ روزی کے نشاں!
تُو جواں ہے ، گردشِ شام و سحَر کے ، درمیاں!
…O…
ایک جلوہ تھا ، کلیمِ طُورِ سیناؑ کے لئے!
تْو تجلّی ہے سراپا، چشمِ بینا کے لئے!
…O…
’’خواجہ غریب نواز / مولا علی ؓ ! ‘‘
یہ میری خوش قسمتی ہے کہ ’’ 1980ء میں میرے جدّی پشتی پیر و مُرشد خواجہ غریب نواز لاہور میں (خواب میں ) میرے گھر تشریف لائے اور 1983ء میں جب مَیں خواب میں ایک دلدل میں پھنس گیا تھا تو، مَیں نے یا علیؓ کا نعرہ لگایا تو ، کسی غیبی طاقت سے مجھے دلدل سے باہر نکال دِیا اور مجھ سے کہا کہ ’’ تم پر مولا علیؓ کا سایہ شفقت ہے!‘‘ ۔ پھر اُسی شفقت کے تحت ستمبر 1991ء میں مجھے صدرِ پاکستان جناب غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ خانہ کعبہ کے اندر جانے کا شرف حاصل ہُوا۔
’’ شاعرِ نظریۂ پاکستان ! ‘‘
معزز قارئین ! 20 فروری 2014ء کو، منعقد ہونے والی چھٹی سہ روزہ نظریہ ٔ پاکستان کانفرنس کے لئے مَیں نے سیکرٹری ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ سیّد شاہد رشید کی فرمائش پر ملّی ترانہ لکھا ، جس پر مجھے ’’مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامی نے مجھے ’’ شاعرِ نظریہ ٔ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا۔ آج اُس ترانے کے صرف تین شعر پیش کر رہا ہُوں …
پیارا پاکستان ہمارا ، پیارے پاکستان کی خیر!
پاکستان میں رہنے والے ، ہر مخلص انسان کی خیر!
…O…
خوابِ شاعر مشرق کو ، شرمندۂ تعبیر کیا!
روزِ قیامت تک ، کردار قائد والا شان کی خیر!
…O…خِطّہ پنجاب سلامت ، خیبر پختونخوا ، آباد!
قائم رہے ہمیشہ ، میرا سِندھ ، بلوچستان کی خیر!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری)