سانحۂ مری: آئینہ دکھا گیا

مری میں سیاحوں کی ہلاکتوں، شدید برفباری کے باعث منافع خوروں کا ہوشربا کرایوں میں اضافہ اور اشیائے ضروریہ کے منہ مانگے دام وصول کرنے کی خبریں سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہی ہیں۔افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ تفریح کی غرض سے آئے سیاحوں کی خوشی ایک سانحے میں تبدیل ہوگئی۔ دراصل مری واقعہ نے خوش فہمی میں مبتلا معاشرتی رویوں کی بدصورتی کو آئینہ دکھایا ہے نیز ایڈمنسٹریشن کو اس کی نااہلی کا چہرہ دکھایا ہے۔ عوام کی اکثریت نے یہ کہا کہ ’’مری کا بائیکاٹ ہی کر دیا جائے‘‘… ’’مری مافیا کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے‘‘۔ قارئین مری بائیکاٹ مسئلے کا حل قطعاً نہیں ہے۔ حل تو یہ ہے کہ ملک کے باقی علاقوں میں سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے کام کیا جائے۔ سفری سہولیات کے علاوہ رہائش اور کوالٹی فوڈ کا بندوبست کیا جائے۔ مری کے انتظامی ڈھانچے میں بہتری لائی جائے۔ پرائس کنٹرول میکانزم پر عملدرآمد میں غفلت نہ برتی جائے، منافع خوروں کے خلاف بلا امتیاز کریک ڈاؤن کی ہدایات جاری کی جائیں۔ مری کو اس کے حال پر چھوڑنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ نئے پاکستان میں اگر سیاحت ایک انڈسٹری ہے تو اس کی انتظامیہ آخر کہاں ہے؟ کیا ٹورازم ڈیپارٹمنٹ فعال ہے؟ بین الاقوامی سطح پر لوگوں کو سیاحت کی دعوت دینا اور اس پر انتظامات معقول نہ ہونا۔ ما روائے عقل ہے!
مری میں صرف مقامی لوگوں کے ہوٹلز ہی نہیں ہیں بلکہ دیگر شہروں سے سیاستدان، کاروباری شخصیات ناجائز منافع کمانے میں مصروفِ عمل ہیں۔ لفظ ’’مافیا‘‘ کو مری کے ساتھ جوڑنا سراسر زیادتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں شوگر، ڈرگ اور نا جانے کتنے مافیاز ہیں جو سبزیوں، پھلوں، دالوں، بیف،مٹن، برائلر کی قیمتوں میں اپنے تیئں مصنوعی اضافہ کر دیتے ہیں جس کا مقصد غریب عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالنا ہوتا ہے۔ مری مافیا چھوڑیے صاحب! ذرا ان لوگوں کی طرف تو متوجہ ہوں جو مری سانحہ پر کف افسوس مل رہے ہیں ’’ہائے بیچارے سردی سے ٹھر کر جاں بحق ہوگئے ان ہوٹل مالکان کو ذرا ترس نہ آیا۔ یادرکھیے! انہی میں سے چند حضرات رمضان المبارک میں چاٹ کے لیے فروٹ مہنگا کر دیتے ہیں۔ کھجور کے ریٹ آسمانوں تک جا پہنچتے ہیںحتی کہ سبزی غریبوں کی پہنچ سے باہر ہو جاتی ہے۔یوٹیلیٹی سٹورز پر آٹا دستیاب نہیں ہوتا۔ ہر گھٹیا اور زائد المیعاد شے عید پر سیل کے نام پر مہنگی فروخت کر دی جاتی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہر کوئی اس امر کو برا گردانتا ہے تو پھر برائی کرنے والے کون ہیں؟؟؟ برائی کیسے اور کیونکر پھیلتی ہے۔ !!! مری والوں کو چھوڑیے ذرا ان مافیا کا تذکرہ ہو کہ جب ملک بھر میں کورونا کے سبب جزوی لاک ڈاؤن کی بدولت لوگوں کے کاروبار زندگی متاثر ہوئے ایسے میں مارکیٹ سے بہت سی اشیاء اٹھا کر منافع خور مافیا نے گودام اور گھروں میں اشیاء اسٹاک کر لی تھیں تاکہ وہ اپنی مرضی کی قیمتوں پر انہیں فروخت کر سکیں۔ وہ وقت بھی یاد ہے جب ماسک کی طلب بڑھ گئی تھی اور 10 روپے والے ایک ماسک کی قیمت 150 تک جا پہنچی تھی۔ پیناڈول ایسے شارٹ ہوئی کہ میڈیکل سٹورز میں نام تک نہ رہا۔ جو ادویات کورونا مریضوں کے لیے درد میں آرام کی وجہ شمار ہورہی تھیں… راتوں رات ان کی قیمتیں بڑھ گئی تھیں۔ کسی نے کہا کہ سنامکی بہت کارگر ثابت ہوگی!!! تو جی اب پنسار مافیا میدان میں آگیا۔ سنامکی کا ریٹ سونے کے بھاؤ ہو گیا۔ ایسے منافع خور مافیا ہی ملک و ملت کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ یہ لوگ کسی رعایت کے مستحق نہیں! بلیک مارکیٹنگ کل بھی حرام تھی آج بھی حرام ہے اور تاقیامت رہے گی۔ پاکستان میں بلیک مارکیٹنگ لوگوں کے لیے منافع خوری ایکٹ 1977اور فوڈ سیفٹی کنٹرول ایکٹ 1958 کے تحت قانونی کاروائی کا اختیار موجود ہے  مگر بے سود۔! شاید ہی کسی منافع خور کو سزا ملی ہو۔ افسوس کہ ہمارے اخلاق سوز معاشرتی رویے ہماری پہچان بن چکے ہیں۔ تعلیم کا شعبہ ہو یا طب کا، صحافت کا ذمہ دارانہ پیشہ ہو یاعدالتی نظام ہر طرف کرپشن اور لوٹ مار کی ان گنت کہانیاں سامنے آتی رہتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جس معاشرہ میں بددیانتی عام ہو جائے وہاں سکون کی فضا کبھی قائم نہیں رہ سکتی۔ ایسا معاشرہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔ اس میں مسلم اور نان مسلم کی کوئی تخصیص نہیں۔ یہ مالک کائنات کا نظام ہے۔ انسانوں اور جانوروں کو ممتاز کرنے والی چیز اخلاق و کردار ہے مگر ہمارے معاشرے میں انسان نما بھیڑیے موجود ہیں جو پورے ملک کا مثبت امیج خراب کرنے میں پیش پیش ہیں۔ حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ، خوشامد، دوغلہ پن، حرص، طمع، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی آخر وہ کون سی اخلاقی گرواٹ ہے جو ہم میں موجود نہیں۔ ہم کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے مسلمانوں کی اخلاقی پستی پر انہیں تنبیہ کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے کہ 
تا نداری از محمدؐ رنگ و بو
از درودِ خود میالا نامِ او
یعنی اگر تمہاری سیرت و کردار اخلاق و اطوار اپنے نبی کریمؐ کے رنگ و بو سے بہرہ ور نہیں یا تم سے آپ کے اخلاق حسنہ کی بو نہیں آتی تو تمہیں قطعاً یہ زیب نہیں دیتا کہ اپنی ناپاک زبان سے ان ؐپر درود بھیجنے کی جسارت کرو، مسلمان کہلوانا تو دور کی بات ہے۔

ای پیپر دی نیشن