ــجب خاک نے سفیدی اوڑھی

Jan 14, 2022

ہرسال پاکستان میں موسم سرما کے دوران برفانی علاقوں میں سیاحوں کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ لوگ کچھ خوبصورت یادیں بنانے کے لئے ایسی جگہوں کا رخ اختیار کرتے ہیںجہاں انہیں برفباری دیکھنے کا موقع مل سکے ۔ ایسے میں متوسط طبقے کے لئے مری کا مقام اولین ترجیح رہتاہے۔اس سال بھی لوگوںکی کثیر تعداد نے مری کا رخ کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کے مطابق تقریبا ایک لاکھ سے زائد گاڑیا ں مری میں داخل ہوئیں۔ جب کہ حکام کے مطابق مری میں تیس ہزار سے زائد گاڑیاں پارک کرنے کی گنجائش نہیں۔ایسی صورت حال میں 7 جنوری کو مری میں برف کے طوفان میں پھنسنے، کاربن مونو آکسائیڈ گیس، گاڑیوں پر درختوں کے گرنے اور ریسکیو کے کام میں تاخیر کی وجہ سے 23 افراد کی اموات واقع ہوگئیں جن میں اسلام آباد پولیس کے اے ایس آئی اپنے خاندان کے 7افراد سمیت لقمہء اجل بن گئے ۔ ایک اور گاڑی میں چار دوست مردہ حالت میں پائے گئے ۔ یہ یقینا ایک اندوہناک سانحہ ہے جس سے ملک پاکستان کی فضا سوگوار ہے۔ واقعہ کے بعد سے ہی ہرطرف سے ایسے سوال سامنے آئے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟اور اس سے کیسے بچاو ممکن ہوسکتا تھا۔حکومت و عوام ایک دوسرے پر اس حادثہ کی ذمہ داری عائد کرتے نظر آتے ہیں۔لیکن جیسے جون ایلیاء نے کہا تھاکہ
کون سیکھا ہے صرف باتوں سے 
سب کو اک حادثہ ضروری ہے
میرے خیال میں اب اس Blame Game کو ختم کرتے ہوئے اس غمناک حادثہ سے سیکھنے اور سنبھلنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اس سانحہ کی انکوائری کے بعد ذمہ داروں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے خلاف کاروائی ضرور کرے گی۔ لیکن ہمیں ان معمول کی محکمانہ اور حکومتی کاروائیوں سے بڑھ کر بھی کچھ کرنا ہوگا۔تبھی آئندہ سے اس طرح کے حادثات سے بچنا ممکن ہوسکے گا۔
ہم اس سے پہلے بھی2005ء کے زلزلہ میں، 2008ء کے سیلاب میں، کراچی میں ہوئی طوفانی بارشوں کے نتیجے میں اور کرنٹ لگنے سے ہونے والی اموات کے مواقع پر یہ سب سن اور برداشت کرچکے ہیں یہ سب حادثات ہمیں بار بار ایک قوم بن کر ان مسائل کو حل کرنے کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔ ایک ایک انسانی جان ہمارے لئے قیمتی ہے ان کے ضیاع کے لئے ہمیں مزید حادثات کا انتظار نہیں کرنا چاہئے۔اب ہمیں انفردی ، اجتماعی و حکومتی سطح پر اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ عوامی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری یقینا حکومت وقت کی ہوتی ہے لیکن اس بناء پر ہم بھی اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے ۔ہمیں انفرادی کردار ادا کرتے ہوئے ہر اس جگہ کو جہاں ہمارا آج غیر محفوظ ہے، ہر ممکن کوشش کرکے محفوظ بنانا ہے۔موجودہ سانحہ میں زیادہ تر اموات گاڑی کے برف میں پھنسنے کے بعد گاڑی میں بند شیشوں کے باوجود ہیٹر اسٹارٹ رکھنے اور کاربن مونو آکسائد گیس کے اخراج نہ ہونے کی وجہ سے ہوئیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں سیر و تفریح کے لئے نکلنے سے پہلے ضروری سامان جیسیا کہ برف ہٹانے کے لئے چھوٹے بیلچے،خود کر گرم رکھنے کے لئے ضرورت سے زائد کپڑے ، خوراک ،ضروری دوائیاں اور چھوٹے آکسیجن سلنڈر کی دستیابی کویقینی بنالینا چاہیے ۔
برف باری کے مقامات پر جانے سے پہلے گاڑیوں کے ٹائروں پر اسنو چین کا ہونا ضروری ہے اور اگر ممکن ہوتو شوز یا جاگرز کے نیچے بھی اسنو چین لگوالی جائیں۔ اور اگر بوڑھے اور بچے بھی سفر میں ہمراہ ہوں تو پہلی مرتبہ نئے مقامات پر جانے والے سیاحوں کو چاہئے کہ وہ کسی تجربہ کار آدمی کے ساتھ سفر کریں تاکہ سفرمیں آنے والی مشکلات میں ان کی مدد کے لئے کوئی موجود ہو ۔اگرچہ یہ خاکی انسان تو سفیدی اوڑ ھ کر سو گئے ہیں لیکن بحیثئت قوم ہمیں جھنجوڑ گئے ہیں۔ اب وہ وقت آگیا ہے جہاں انسانیت کو یکجا ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ باہمی کاوشیں ہی ایسے کسی قسم کے حادثے یا سانحے سے بچاؤ کا بہترین حل ہوسکتی ہیں۔

مزیدخبریں