جس تیزی سے زندگی رواں دواں ہے، اسی تیزی سے موت زندگی کے تعاقب میں ہے۔ہم نادان ہیں ،زندگی کو کھیل تماشا سمجھ رہے ہیں،اسکی حقیقت تک رسائی ہم سے ممکن نہیں ہو رہی۔کبھی کبھی لگتا ہے زندگی کی دوڑ جس مہرباں کے ہاتھ میں ہے وہ اوپر سے دیکھ کے دھیمے دھیمے مسکراتا رہتا ہے۔ ہماری لاپرواہی کوتاہی اور بے حسی کو نظر انداز کرتا رہتا ہے مگر سب کچھ اس کے دھیان میں رہتا ہے۔دل کہتا ہے اسے سب سے زیادہ ناراضگی اس وقت ہوتی ہے جب اس کے بندے اپنے جیسے بندوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیتے ہیں، انہیں اپنے ظالم رویوں سے کچل دیتے ہیں،ان پہ رحم نہیں کرتے۔
اللہ کی ذات مہربان ہے وہ اپنے حقوق تو معاف کر سکتا ہے لیکن انسان کے حقوق کو انسان سے وابستہ وہی بندہ معاف کرے گا جس کا استحصال کیا گیا ہو گا۔ حال ہی میں ہونے والے سانحہ مری نے ہر انسان کی آنکھ کو اشکبار کر دیا۔ زندگی کی رنگینیوں، رعنائیوں،پہاڑوں پہ پڑی برف باری کو انجوائے کرنے،قدرت کے دلکش منظر سے مسحور ہونے والے کیا جانتے تھے موت ان کے پیچھے پیچھے چل رہی ہے۔ چند ہی لمحوں میں ان کی سانسیں پہاڑوں پہ پڑی برف کے ساتھ ہی برف ہو جائیں گی۔ کوئی ان کی پکار نہیں سنے گا،کوئی مدد کو نہیں آئے گا وہ معصوم بچے جن کے ننھے ننھے دل ابھی کسی تکلیف سے آشنا نہیں تھے کیسے تڑپے ہوں گے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم ایسے بے حس دیس میں رہتے ہیں کہ ہم پہ کوئی مصیبت پڑے تو کوئی ہمارے کام نہیں آتا۔ یہ کیا ہو رہا ہے کہیں کسی کو ڈنڈوں اینٹوں سے مارا جا رہا ہے، کہیں گنجان شہر کی سڑک پہ کسی کو سرعام جان سے مار دیا جاتا ہے کوئی وقت پہ مدد نہیں کرتا۔ اپنے دیس میں آپ گھر کو کوئی برا نہیں کہتا مگر آج تمام تر حقائق اس بات پہ مجبور کر رہے ہیں کہ بے حسی کوبے نقاب کیا جائے۔ ریاست عوام کے حقوق کی علمبردار ہوتی۔ کوئی بھی شہری مشکل میں ہو اس کی مدد کو پہنچنا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے، اگر ریاست میں قائم شدہ حکومت ان تمام تر فکروں سے آزاد ہے مگر اپنے شہریوں کی جان مال کی حفاظت کرنے میں ناکام ہے تو اسے ملک اور عوام کے لیے مزید آزمائش کا باعث نہیں بننا چاہئے۔غریب کا دکھ غریب جانتا ہے، مرنے والے کا دکھ اسے ہوتا ہے جس کا کوئی پیارا دنیا سے چلا جاتا ہے۔اور بے بسی کی موت کہ مدد کے لیے مرنے والا پکار رہا ہو اور دور کھڑا شخص اس کے لیے کچھ نہ کر سکے۔سانحہ مری سے بہت سے دلگیر واقعات سامنے آئے ۔ انسان کے کردار معیار اور وقار کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب وہ مشکل میں کسی کے کام آئے ، کہنے والے نے سچ کہا تھا ،دوست وہ ہے جو مشکل میں کام آئے ،آج ہم بے حسی کی آخری حد سے بھی آگے گزر چکے ہیں ہم دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ خوبصورت علاقے میں رہنے والے لوگوں کے کاش دل بھی خوب صورت ہوتے کاش وہ ہمدرد ہوتے اس وقت جب ان کے ارگرد لوگ مشکل میں پھنسے ہوئے تھے، انہوں نے ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا۔ ہوٹل مالکان نے بھی اس مشکل وقت میں ہوٹل کے کرائے اور دیگر اخراجات کے دگنے سے بھی زیادہ دام وصول کئے۔ اب مری والوں کے دامن پہ لگے اس داغ اور بے حسی والے رویے کو لوگ کبھی نہ بھلا پائیں گے۔
ٹی وی چینلز پہ آکے حکومت اور اپوزیشن کی مکروفریب سے بھری بیان بازیوں سے لوگ اب تنگ آچکے ہیں۔ ایک بیان پہ دوسرے کا اس سے برا اور سخت بیان کیا یہی پاکستانی سیاست ہے ۔
اس سے عام بندے کو کوئی سروکار نہیں ان کی لفظی لڑائیاں تو چھوٹے چھوٹے گھروں میں ہونے والی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں سے بھی گئی گزری ہیں جن میں پھر بھی ایک دوسرے کا لحاظ کیا جاتا ہے ۔حکومت کا فرض ہے کہ وہ اداروں کو مضبوط کرے تاکہ کوئی شہری مشکل میں ہو تو اس کی فورا مدد کے لیے کوئی حل نکالا جا سکے۔
میں ان تمام اداروں کے لیے تہہ دل سے دعا گو ہوں جنہوں نے اس مشکل گھڑی میں برف میں دھنسے لوگوں کی آکے مدد کی ان کو کھانے پینے کی اشیاء فراہم کیں نواز کھرل صاحب خدمت خلق کے جس ادارے سے وابستہ ہیں اس ادارے المصطفیٰ ٹرسٹ کے تعاون سے لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء فراہم کی گئیں۔ یہ دنیا فانی ہے سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ بس نیک اعمال اور دوسروں کے کام آئے ہوئے لمحات دائم رہیں گے۔سانحہ مری میں جاں بحق ہونے والے تمام افراد کے لواحقین کے لیے صبر جمیل کی بے لوث دعائیں ۔