لاہور ( سپورٹس رپورٹر) پاکستان کے سابق کرکٹر اور معروف کمنٹیٹر بنے بازید خان نے آسٹریلیا کو خبردار کیا ہے کہ وہ دو دہائیوں سے زائد عرصے کے بعد پاکستان کے دورے کی تیاری کرتے ہوئے سپن ہیوی اٹیک کا انتخاب نہ کرے۔ پاکستان نے اپنی سرزمین پر صرف مٹھی بھر ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں لیکن محدود اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سپن کے مقابلے پیس بائولنگ ایک اہم کردار ادا کرے گی۔پاکستان میں پچھلے دو سال میں فاسٹ باؤلرز نے سپنرز کے مقابلے دو گنا زیادہ وکٹیں حاصل کی ہیں۔ بازید خان نے اس عمومی خیال کو غلط قرار دیا کہ پاکستانی پچز پر سپنرز مددگار ثابت ہوں گے۔ پاکستان کے بارے میں عام خیال ہے کہ یہاں آنیوالی ٹیم کو 2 سپنرز کھلانے چاہیئیں جو آپ کو میچ جتواسکتے ہیں، میرے خیال میں یہ تھیوری غلط ہے۔ پاکستانی پچز بھارت سے بالکل مختلف ہیں، یہاں گیند فوراً سپن نہیں ہوتی اور زیادہ تر وکٹیں سپنرز کی بجائے تیز رفتار پیسرز کو مدد دیتی ہیں، میرے خیال میں اگر آپ کے پاس دو عالمی معیار کے سپنرز نہیں ہیں تب بھی آپ پاکستان میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ برصغیر کے بارے میں غیر ملکی ٹیموں کی تھیوری پاکستان میں کام نہیں کرتی ہے۔پاکستان میں کھیلے گئے میچوں کے اعداد و شمار کے مطابق تیز گیند بازوں نے تقریباً 60 فیصد اوورز کرائے ہیں اور سپنرز کے مقابلے ان کی اوسط اور سٹرائیک ریٹ بہتر ہے۔ پاکستان میں 2019ء سے 2021ء کے دوران ٹیسٹ کرکٹ میں فاسٹ بائولرز نے 29.6 کی اوسط سے 89 وکٹیں حاصل کیں جبکہ سپنرز نے 39.4 کی اوسط سے 48 وکٹیں لیں۔ سری لنکا میں 2019ء سے 2021ء کے دوران فاسٹ بائولرز نے 37 کی اوسط سے 65 وکٹیں لیں جبکہ سپنرز نے 31.5 کی اوسط سے 179 وکٹیں حاصل کیں۔ بھارت میں اسی عرصے کے دوران فاسٹ بائولرز نے 26.3 کی اوسط سے 150 وکٹیں لیں جبکہ سپنرز نے 27.7 کی اوسط سے 258 وکٹیں اپنے نام کیں۔