سیاست کے میدان،ادب کی بیٹھکیں ،صحافت کے شعبہ علماءحق کی صحبتیں،زندانوں کے بلاخانے ،ملکوں ملکوں کی سیاحت اورپیشئہ وکالت سے لے کراس زندگانی میں بہت سی محفلوں کی رونقیں دیکھیں۔ سیاست کے بہت سے معرکے سرانجام دیئے۔ اب یادوں کا ایک خزانہ کبھی ختم نہ ہونے کیلئے باقی ہے۔ادبی محفلوں کی شام ہوگئی ۔کہیں کہیںکوئی دیاجلتا نظر آتا ہے ۔سیاست کے بازارمیں ایسے ایسے لوگ آئے کہ حبیب جالب یادآنے لگے
حکمراں بن گئے کمینے لوگ
خاک میں مل گئے نگینے لوگ
1985ءکے بعد آہستہ آہستہ شعبہ صحافت میں "لفافہ کلچر"نے اس کی سچائی اور پاکیزگی کو ایسا گہنا یا اورکفنایاکہ سچ لکھنے والے کم ہوئے گئے،جگر دارلوگ تھوڑے سہی مگر اب بھی ہیں ۔ارشد شریف نے ثابت کیاکہ شہادت پر کسی ایک شعبے کی اجارہ داری نہیں یہ بلند رتبہ کوئی اور بھی حاصل کرسکتا ہے ۔اب بھی خون جگر سے لکھنے والے موجود ہیں۔اللہ کے ولی مولانا عبیداللہ انور کی مجلس نصیب ہوئی ۔انکے ساتھ کوٹ لکھپت جیل لاہور میں اسیری کے ایام بھی گذارے ۔ایئر مارشل اصغر خاں کی قیادت میں ربع صدی سے زیادہ سیاسی زندگی کے ماہ وسال گذرے۔سربراہان کے بعد سیاسی جماعتوں میں ایک صف اول کی قیادت ہوتی ہے۔ اصغر خاں کی جماعت تحریک استقلال کی پہلی صف کی قیادت میں نواب اکبربگٹی،میاں محمود علی قصوری،ملک وزیر علی،خورشید قصوری،ملک حامد سرفراز (جو1970ءمیں شیخ مجیب الرحمان کی جماعت عوامی لیگ کے ٹکٹ پر مغربی پاکستان سے واحد امیدوار تھے) والی ¿سوات میاں گل اورنگ زیب اور احمد رضاقصوری شامل تھے ۔ دوسری صف میں نفیس صدیقی ،نثارکھوڑو،جسٹس میاں اللہ نواز ،میاں منظوروٹو،چوہدری اعتراز احسن ،ڈاکٹر خالد رانجھا،تصدق بلوچ،سید منظورگیلانی، میجر نادر پرویز اورایسے ہی باصفا لوگ قیادت کرتے تھے اور میں پنجاب کے جوائنٹ سیکرٹری اورپھر جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے پانچ سال تک اپنے فرائض سرانجام دیتا رہا۔میاں نواز شریف جب تحریک استقلال میں شامل ہوئے تو وہ نہ پہلی صف میں تھے اور نہ دوسری میں ۔انہیںپارٹی کی لاہور شاخ کے فنانس سیکرٹری اورپھر نائب صدر کا عہدہ دیا گیا۔تحریک استقلال نے سیاست کے میدان میں بڑے جھنڈے گاڑے۔ بہت اعلی قسم کے لوگ اس سے تربیت یافتہ ہوئے۔ سیاسی سفر میں اگلاپڑاﺅ"پاکستان قومی اتحاد"کے نام سے بننے والااتحادتھا۔"قومی اتحاد"میں یوں تو بہت سے راہنماﺅں سے رابطہ رہا اور ان کی محفلیں اور مجلیس نصیب ہوئیں۔نوابزادہ نصراللہ خاںتوتھے ہی محفلوں کے بادشاہ۔ لوگ سنتے رہیں اور نوابزادہ صاحب بولتے رہیں مگر مولانا شاہ احمد نورانی جیسا بھی دوسرا کوئی نہ تھا۔انگریزی ادب ان کی زبان سے نکلتا تواس کے رنگ بھی خوب نکھرتے۔تلاوت کرتے توہر ذی روح پرجیسے سکتہ طاری ہوجاتا ایک ایسی کیفیت لوگوں پر طاری ہوجاتی جیسے وہ بت بن گئے ہوں اوردل ایسے نرم ہوجاتے کہ آنکھیںبھیگ جاتیں۔تحریک استقلال سیاسی جدوجہد کے اگلے مرحلے میں 1980ءمیں"تحریک بحالی جمہوریت "(MRD)کے نام سے بننے والے سیاسی اتحاد میں شامل ہوئی تو سیاسی دوستوں میں اضافہ ہوا،خاص طورپر پاکستان پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کی جماعتوںکی شمولیت سے ۔ MRDپاکستان کی تاریخ کاایک طویل سیاسی اتحاد تھا جو مسلسل پانچ سال تک قائم رہا اور پانچ سال ہی اس سے وابستہ سیاسی راہنماﺅں اور کارکنوںکی پھانسی کے پھندوں ،خودسوزیوں ،شاہی قلعے کے عقوبت خانوں اور جیلوں کے قصائی خانوں کے سوا اور دیگر کوئی داستان نہیں۔جیلوں میں رہنا پڑا تو ملک قاسم،ANP کے راﺅ مہروز اختر ،فاروق قریشی ۔پیپلز پارٹی کے فاروق لغاری (سابق صدر پاکستان )راﺅ رشید ،چوہدری انورعزیز کی جاندار مجلیس آج بھی یاد آتی ہیں۔علماءحق ،سیاسی راہنماﺅں اورشعرادب کے لوگوں کے علاوہ پاکستان کی آنجہانی فلم انڈسٹری کے کہانی کاروں۔ہدائت کاروں اور فلمی ستاروں سے بھی خوب خوب یاداللہ رہی ۔بین الاقوامی سیاحت میںبھی ملکوں ملکوںکے لوگوں ، موسموں اورمادی ترقی کی یادبھلائے نہیں بھولتی ۔زندگی کو بہت سی اطراف سے دیکھا ،خاص طور پر سیاست کی جہت ۔سے ایسا نہیں کہ اس میں جوآتا وہ لوٹ مار کرکے چلتا بنا۔کانٹوں سے بھری اس راہ میں ایسے لوگ بھی ہماری نظروں سے گذرے کہ دامن نچوڑدیں توفرشتے وضوکریں۔ذوالفقار علی بھٹو ،ایئر مارشل اصغر خاں، نوابزادہ نصراللہ خاں،خان عبدالولی خاں، سردار شیر باز مزاری۔مذہبی جماعتوں میں مولانا مودودی، مولانا عبید اللہ انور،مولانا شاہ احمد نورانی ،یہ سب ایسے لوگ تھے جنہوں نے اپنی گرہ سے سیاست کی ۔جن کے دامن پر مالی کرپشن کاایک معمولی سادھبہ بھی نہیں ۔آئینہ صفت لوگ تھے ۔پھر1985ءمیں جنرل ضیاءالحق کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد سیاست نے کروٹ لی اور جائیز ناجائزدولت کاچلن ہوا جسے میاں نواز شریف نے عروج بخشا۔آصف علی زرداری ، یوسف رضاگیلانی، راجہ پرویز اشرف ،خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، اسفندیارولی حتی کہ مولانا فضل الرحمان وغیرہ نے سیاست کی لغت ہی بدل ڈالی ۔ایسی بدلی کہ گھن آنے لگی۔ایسے میں ان بڑے لوگوں کے ساتھ پرانی صحبتیں،مجلیس،محفلیں تقریر یں باتیں یاد آتی ہیں تو سیدعطاءاللہ شاہ بخاری کا شعر یاد آجاتا
پرانی صحبتیںیاد آرہی ہیں
چراغوں کادھواں دیکھانہ جائے