حیات ، خدمات اوروفات
ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر
وہ اپنے آقاؐ کے بہترین ساتھی تھے۔ معاشرے کے خوش حال تاجر ، ممتاز مقام کے حامل فرد۔ ان کی پوری زندگی پاکیزگی اور نیکی کی علامت تھی۔ وہ دل کے نرم تھے۔ لوگوں سے ہمدردی اور محبت ان کا شعار تھا۔ زندگی بھر جھوٹ سے دور رہے۔ جب جہالت سے بھرا ہوا معاشرہ ہدایت کی روشنی سے منور ہونے لگاتو مردوں میں سب سے پہلے انھوں نے سچائی کے راستے پر لبیک کہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ بحیثیت تاجر وہ ’’ ہدایت کی روشنی ‘‘ بانٹنے والے ’’ہادی ‘‘ کو بہت اچھی طرح سے جانتے تھے۔ کئی تجارتی سفر اکھٹے کیے تھے۔ ان کی بے انتہا خوبیوں اور اعلیٰ اخلاق نے ان کے دل میں گھر کر لیا تھا اسی بنا پر ان کا تجارتی تعلق رفتہ رفتہ گہری دوستی میں تبدیل ہوگیا تھا۔ اتنی گھری دوستی کہ صبح و شام ملاقات لازم ٹھہری گئی تھی۔ اسی لیے جب ان کے دوست ، ان کے رفیق نے اللہ کی وحدانیت اور کبریائی کا نعرہ بلند کیا تو انھوں نے بغیر کسی جھجک کے اس پر یقین کرلیا اور اولین ایمان لانے والوں میں شامل ہوگئے۔
ان کے ایمان لاتے ہی روشنی کا دائرہ تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا ، اور کئی اہم اور بلند مرتبہ لوگ اس سفر میں ان کے ساتھ مل گئے۔ لیکن سچائی کے اس راستے پر چلنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ حق کا راستہ روکنے والے دشمنی کے نت نئے حربے آزماتے رہے ، ان کی ذات بھی اس دشمنی کی زد میں آئی۔ انھوں نے بہت حوصلے کے ساتھ ان مصائب کو برداشت کیا۔ ہجرت کے موقع پر وہ ہر ہر قدم پر اپنے آقا کے ساتھ رہے۔ جنگ کے میدان میں ، سفر و حضر میں ، ہر جگہ انھوں نے رفاقت کا حق ادا کیا۔ جب ان کے آقاؐ دنیا سے رخصت ہوئے وہ وہی تھے جنہوں نے انتشار میں گھرِے ہوئے لوگوں کو یکجا کیا ، انھیںحوصلہ دلایا، ان کے اندر جینے کی نئی امنگ پیدا کی۔ اس بردباری ، تحمل مزاجی نے آقا کے بہترین دوست ہونے کے ناتے لوگوں نے انھیں اپنا خلیفہ چن لیا۔ آقا کی رحلت کے بعد موقع پرستوں نے کئی فتنے برپاکیے ، لیکن انھوں نے انتہائی جرات اور مستقل مزاجی کے ساتھ ان فتنوں کا مقابلہ کیا۔ یہاں تک کہ ان کی بصیرت کمالِ عقل اور دانائی کی بنا پر سلطنت مضبوطی اور استحکام اختیار کرتی گئی۔ وہ عبادت کا بہت شوق رکھتے تھے ، پرہیزگاری ان کا وصف تھا۔ انھیں ان کی زندگی ہی میں جنت کی خوش خبری سنا دی گئی تھی۔یہ وہ عظیم شخصیت ہیں جنھیں پیغمبر ِ اسلام کے بعد ساری امت سے افضل ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جنھیں قبل از بعثت بھی محمد عربیؐ کی دوستی کا شرف حاصل ہے ، جنھیں 23سالہ پورے دورِ نبوت میں نبیؐ کی مصاحبت کا تمغہ حاصل ہے، جنھیں تمام غزوات میں نبی التوبۃ کی ہمرکابی کا فخر حاصل ہے ، جنھیں قرآن کریم کے ذریعے صحابیت کی سند حاصل ہے ، جنھیں وفات کے بعد بھی مسجد نبوی کے ساتھ حجرہ ِ رسول میںپیغمبر کا ساتھ حاصل ہے۔ جنھیں وفاتِ رسولؐ جیسے غمناک و المناک موقع پر امت کو سنبھالا دینے اور اختلاف سے بچانے کا مقام حاصل ہے۔ جنھیں انکارِ زکوٰۃ ، انکارِ ختم ِ نبوت اور اِرتداد جیسے خطرناک فتنوں کا سر کچلنے کی سعادت حاصل ہے، جنھیں السابقون الاوّلون ، عشرہ مبشرہ اور خلفائے راشدین میں پہلے نمبر پر ہونے کا مرتبہ حاصل ہے اور جنھیں مقامِ صدیقیت میں سب سے اونچا درجہ حاصل ہے۔
اس عظیم شخصیت کی معروف و مشہور کنیت ’’ابوبکر‘‘ اسم گرامی’’عبداللہ‘‘ اور لقب ’’صدیق اکبر‘‘ؓ ہے۔ بہادری و شجاعت۔ مکہ معظمہ میں دورانِ تبلیغ رسول اللہ کو سخت آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک دن عقبہ بن ابی معیط نے بحالت نماز آپ کا گلا گھونٹا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا۔ فوراً آئے اور اس کو ہٹایا۔پھر فرمایا : کیا تم ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے معجزے بھی لے کر آیا ہے۔ (صحیح بخاری: کتاب فضائل الصحابۃ)
2۔ سخاوت۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں رسول اللہ ؐنے حکم دیا کہ ہم صدقہ کریں اس دوران میرے پاس کچھ مال آگیا۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ اگر کسی روز میں ابوبکرؓ سے صدقہ کرنے میںسبقت لے سکوں تو آج کے دن ان سے آگے رہوں گا۔ عمرؓنے بیان کیا کہ میں اپنا آدھا مال لے آیا۔ رسول اللہؐنے مجھ سے دریافت کیا کہ ’ آپ نے اپنے گھر کے لیے کیا چھوڑا ہے ؟‘‘ عمر ؓ نے جواب دیا کہ اسی قدریعنی آدھا مال چھوڑ آیا ہوں اور آدھا مال آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا ہوں۔ اور ابوبکر ؓ اپنا تمام مال لے آئے۔ آپ ؐ نے ابوبکر ؓسے دریافت کیا، اے ابوبکرؓ ! آپ نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ انھوں نے جواب دیا ، میں نے اپنے گھر والوںکے لیے اللہ اور اس کے رسول، اس کی رضاکو چھوڑا ہے۔ عمرؓ کہتے ہیں میں نے دل میں خیال کیا کہ میں کبھی بھی ابوبکرؓ سے سبقت نہیں لے جا سکتا۔(سنن ابی دا ؤد، کتاب الزکاۃ )
3۔ پرسوز قرأت۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے گھر کے اندر ایک مسجد بنائی اسی میں نماز پڑھنے لگے اور(بلند آواز سے) قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگے۔ مشرکین کی عورتوں اور بچوں کو ان کی قرأت بہت اچھی معلوم ہوتی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ان کا ہجوم ہو جاتا وہ حضرت ابوبکر کو دیکھتے رہتے(اوران کی قرأت سنتے رہتے تھے) حضرت ابوبکر ؓ بہت رونے والے آدمی تھے۔ جب قرآنِ مجید پڑھتے تو انھیں اپنی آنکھوں پر قابو نہ رہتا تھا۔
بے مثال تقویٰ اور پرہیز گاری۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تقویٰ کے لحاظ سے بہت بلند مقام پر تھے۔ ان کا ایک غلام تھا جو انھیں کچھ خراج دیا کرتا تھا، حضرت ابوبکرؓسے خراج سے کھالیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ کوئی چیز لایا حضرت ابوبکر ؓ نے اس میں سے کچھ کھایا غلام نے کہا آپ کو معلوم ہے یہ کیا چیز ہے؟ ۔ انھوں نے پوچھا کیا چیز ہے غلام نے کہا ایامِ جاہلیت میں میں نے کہانت کی تھی( یعنی کسی کوآئندہ کی خبر دی تھی) حالانکہ میں کہانت اچھی طرح جانتا نہ تھا۔ میں نے اسے دھوکا دیا تھا۔ اب وہ مجھ سے ملا اور اس نے یہ چیز مجھے بطورِ انعام دی ہے۔ اور اسی چیز میں سے آپ نے کھایا ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اپنا ہاتھ( اپنے حلق میں) داخل کیا اور پیٹ میں جو کچھ تھا قے کرکے نکال دیا۔ (صحیح بخاری، کتاب مناقب الانصار)
چار خصوصی اعزازات:
1 ۔وفات۔اکثر سیرت نگاروں کے نزدیک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہودیوں نے زہر دیا، جس طرح رسول اللہ کو یہودیوں نے زہر دیاتھا ۔
2۔ تدفین۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مدفن بھی رسول اللہ ؐ کے جوار اور پڑوس میں کردیا۔
3۔عالی شان گھرانہ۔ خود صحابی، باپ صحابی، ماں صحابیہ، بیوی صحابیہ، بیٹے صحابی اور بیٹیاں بھی صحابیات۔
4۔ عمر۔ جس طرح رسول اللہ ؐ کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عمر بھی تریسٹھ سال تھی۔ 22جمادی الثانیہ کی تاریخ تھی جب یہ ماہِ درخشاں مٹی کی آغوش میں چھپ گیا۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو آمین ثم آمین !