کراچی (کامرس رپورٹر )نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ جنیوا کانفرنس کے نتیجے میں پاکستان کو ملنے والے دس ارب ڈالر کے سرمائے کے بہتر اوربروقت استعمال کے لئے ابھی سے انتظامات کئے جائیں۔ متعلقہ قوانین کو تبدیل کر کے عالمی معیار کے مطابق کیا جائے، نا اہل و سست الوجود افسران کو اس معاملے سے دور رکھا جائے اور شفافیت کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے۔ ڈونر مطمئن نہ ہوئے تو ماضی کی طرح محنت اکارت جا سکتی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے جنیوا کانفرنس سے قبل 3 سال میں 16 ارب ڈالر کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا اسطرح اب دس ارب ڈالر سے زیادہ عالمی برادری اور باقی حکومت پاکستان دے گی اور سالانہ تقریباً 5 ارب ڈالر سیلاب زدگان کی بحالی، قدرتی آفات سیعوام کے تحفظ اور انفراسٹرکچر کی تعمیر پر خرچ کیے جائیں گے۔
یہ رقم پاکستان کی معیشت میں گردش کرے گی جس سے جی ڈی پی اور روزگار میں بہتری آئے گی اس وقت ملک کلائمیٹ چینج، غذائی قلت، پانی کی کمی، آلودگی اور زرعی زمین کی تباہی کا شکار ہے جن پر بھرپور توجہ دینی ہو گی۔ ادارہ جاتی اصلاحات کا عمل شروع کرنا ہوگا۔ مختلف صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتوں کا کسی ایک منصوبہ پر متفق ہونا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں کیونکہ سب پارٹیوں کو یہ معلوم ہونا چائیے کہ ان معاملات کو زیادہ عرصہ تک ٹالنا خودکشی ہو گی۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان میں اہم منصوبوں میں سالہا سال کاالتوا اور سرمائے کا زیاں معمول کا عمل سمجھا جاتا ہے جو ڈونرز کے لئے ناقابل برداشت ہو گا۔ اس وقت 1.6 کھرب روپے کے بارہ سو منصوبے التوا کا شکار ہیں جن کا حجم پی ایس ڈی پی سے زیادہ ہے۔ اس لئے حکومت منصوبہ بندی کو بہتر بنائے، تعمیرات، خریداری اور منظوری کے قوانین عالمی معیار کے مطابق بنائے جائیں تاکہ نقصانات کم ہوں اور نجی شعبہ اس میں شرکت کر سکے اور ڈونرز تمام منصوبوں کی بہتر مانیٹرنگ کر سکیں۔ کسی ایک ڈونر کی مایوسی سے باقی ماندہ ڈونرز پر بھی منفی اثر پڑے گا جو پاکستان کے لئے نقصان کا سبب بنے گا۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ پہلے چار ممالک دنیا کا پینتالیس فیصد جی ڈی پی پیدا کر رہے ہیں جبکہ عالمی جی ڈی پی میں پاکستان کا حصہ صرف 0.4 فیصد ہے جو سیلاب کے بعد مزید کم ہورہا ہے۔