ملک پاکستان کی فضاوں پہ آج کل اےک عجےب سی دھند چھائی ہوئی ہے ۔اےسی دھند ہے کہ جس نے چرند،پرند،حےوان اور انسان ہر کسی کو پرےشان کر کے رکھ دےا ہے ۔آبادی مےں بے تحاشہ اضافہ اور سونا اگلتی زمےنوں پر ہاوسنگ سوسائٹےز بنانے والوں نے زرعی ملک کہلانے والے پاکستان کو اجناس کے لےے دوسروں کے آگے جھولی پھےلانے پر مجبور کےا ہوا ہے اور پچھلے کچھ سالوں سے سردےاں شروع ہوتے ہی فضاوں مےں زہرےلے مادے اس کثرت سے محسوس ہونے لگتے ہےں کہ بہت سے لوگوں کو سانس اور دوسری بےمارےاں آگھےرتی ہےں ۔لےکن اس سے بھی بڑی بدقسمتی ےہ ہے کہ نہ تو ہمارے حکمران اور نہ ہی طاقتور محکمے ملکی فضاو¿ں کو تادےر صاف رکھنے کا کوئی قابل عمل منصوبہ شروع کرپائے ہےں ۔بلکہ حےرت ہے اس سنگےن مسئلے کو لے کے ابھی تک کوئی باقاعدہ تھنک ٹےنک تشکےل دےنے کی کوشش بھی نہےں کی گئی ہے ۔ملک مےں سموگ اور فوگ کے ساتھ ہی تعلےمی اداروں کو بند کرنے کی آواز بلند ہونے لگتی ہے ۔ےہ آواز نہ تو والدےن کی طرف سے ہوتی ہے نہ اساتذہ کی طرف سے بلکہ تعلےمی ادارو ںمےں چھٹےاں مےڈےا کے ان اےنکرز کی بےقراری کی وجہ سے کروائی جاتی ہےں جو برےکنگ نےوز کے چکر مےںکوئی اےک دو خبرےں تلاش کرلےتے ہےں جہاں بچوں کو شدےد موسمی اثرات کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ملک پاکستا ن مےں سردی ہمےشہ سے ہی ان دنوں اپنے جوبن پر ہوتی ہے لےکن ہم نے بچپن سے ےہی دےکھا ہے کہ دسمبر کے آخری ہفتے تعلےمی ادارے بند کےے جاتے ہےں ہم تو ہمےشہ سے ےہی سمجھتے رہے ہےں کہ ےہ چھٹےاں مسےحی برداری کے بڑے دن اور بابائے قوم کی سالگرہ کے حوالے سے ہوتی ہےں ۔ اب جب اےک طرف دسمبر خشک گزرنے لگا ہے اور جنوری کے دوسرے عشرے مےں بارشےں شروع ہونے لگےں ہےں تو ہمارے فےصلہ سازوں کو چاہےے کہ اگلے سال پچےس چھبےس دسمبر کی ہی چھٹی دےں جبکہ جنوری مےں موسم کے بدلتے رنگوں کو دےکھ کے تعلےمی ادارے بند کرنے کا فےصلہ کےا جائے ۔سموگ کی وجہ سے تعلےمی اداروں کو بند کرنے والے جج صاحبان کی خدمت عالےہ مےں گزارش ہے کہ بڑے شہروں مےں دھواں چھوڑنے والی گاڑےوں، بغےر نمبر پلےٹ ،بغےر پاسنگ چلنے والے رکشوں ،پلاسٹک جلا کے اےندھن حاصل کرنے والے کارخانوں اور فےکٹریوں کے خلاف بھی کوئی مو¿ثر حکم جاری کرےں۔دھند مےں کچھ نظر نہےں آرہا ہے ۔اےسی اےسی پرےشان کن خبرےں سننے کو مل رہی ہےں کہ ہر خاص و عام پرےشان ہے۔
ہماری معےشت ہمےشہ سے کمزور اور اغےار کے ادھار پر رنگتی آرہی ہے ۔لےکن آج کل ملک دےوالےہ ہونے کی باتےںتےزی سے گردش کر رہی ہےں۔مہنگائی عوام کا جےنا مشکل کےے ہوئے ہے جب کہ ہمارے حکمران اس وقت باندر کلہ کھےل رہے ہےں ۔لگتا ہے سب کی نظر اسی کلے کی طرف ہے جہاں سے انہےں طاقت ،اقتدار اور مال و دولت مل سکتا ہے ۔ہمارے سابق وزےر اعظم کی بائےس سالہ کوشش کے باوجود کن بےساکھےوں کے سہارے اقتدار نشےں ہوئے اس حوالے سے اگر کسی کو شک تھا تو اب وہ دور ہوچکا ہے ماسوائے جناب عمران خان کے ۔وہ اب بھی سمجھتے ہےں کہ وہ اپنی مقبولےت اور کرشماتی شخصےت کے بل بوتے پر تخت اسلام آباد کے حق دار قرار پائے تھے۔ جب سے انہےں وزےر اعظم کے عہدے سے ہٹاےا گےا ہے وہ اےک طرف وقت سے پہلے انتخابات کی بات کرتے ہےں تو دوسری طرف جب ان کے پاس نمبر پورے تھے انہوں نے کے پی کے اور پنجاب اسمبلےوں کو توڑنے کا عملی مظاہرہ کرنے سے گرےز کےا ۔ دانشور کہتے ہےں اگر خان صاحب واقعی انتخابات چاہتے تو وہ اپنے سب ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو مستعفی ہونے کا کہہ سکتے تھے۔لےکن انہوں نے اےسا نہ کےا ،شاےد وہ اس انتظار مےں تھے کہ جب وہ لاہور سے لاکھوں کروڑوں کا مجمع لے کے اسلام آباد کا رخ کرےں گے تو اسلام آباد مےں بےٹھے حکمرانوں کی ٹانگےں کانپنے لگےں گی اور وہ خان صاحب کی شرائط اور مرضی کے مطابق جلد الےکشن کا وقت دے دےں گے ۔لےکن اےسا ہو نہ سکا ۔ اس لےے کہ خان صاحب کے بہت سے غلط فےصلوں اور ےو ٹرنوں کے بعد عوام بے ےقےنی کا شکار ہو چکے تھے ۔ لانگ مارچ ناکام ہوا تو خان صاحب نے کے پی کے اور پنجاب اسمبلی توڑنے کی طرف پورا دھےان کردےا۔پنجاب اسمبلی گورنر اور پھر بعد مےں ہائےکورٹ کے احکامات سے وقتی طور پر بچ گئی ۔ خان صاحب کو کے پی کے اسمبلی توڑنے کے لےے کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہےں ہے ۔قبل از وقت انتخابات نا ممکن دکھائی دےتے ہےں بلکہ وقت پر انتخابات کا ہونا بھی مشکل ہوچکا ہے ۔نئی مردم شماری کے لےے اساتذہ کو تربےت دی جارہی ہے ۔اساتذہ کا ذکر آےا تو مےرے ذہن مےں بے اختےار ےہ بات گردش کرنے لگی ہے کہ ہمارے حکمران اساتذہ کو کب تک اےسے کاموں مےں اُلجھائے رکھےں گے ۔مردم شماری،ڈےنگی اور کبھی دوسری ضرورت محسوس ہوئی تو اساتذہ کی ڈےوٹےاں لگادی جاتی ہےں ۔کےا ہی اچھا ہو کہ الےکشن کمےشن انتخابات کے لےے پڑھے لکھے لےکن بے روزگار نوجوانوں کو تربےت دے کے ےہ کام کروائے اور اساتذہ کو صرف درس و تدرےس اور تعلےمی کورسز کی طرف ہی رکھا جائے۔
پچھلے کچھ سالوں سے سردےاں شروع
ہوتے ہی فضاوں مےں زہرےلے
مادے اس کثرت سے محسوس
ہونے لگتے ہےں کہ بہت سے لوگوں
کو سانس اور دوسری بےمارےاں
آگھےرتی ہےں ۔ حےرت ہے اس
سنگےن مسئلے کو لے کے ابھی تک کوئی
باقاعدہ تھنک ٹےنک تشکےل دےنے
کی کوشش بھی نہےں کی گئی ہے