موروثی سیاست کے نتائج اور قومی ذمہ داریاں

Jan 14, 2023


میاں نوازشریف مسلم لیگ (نواز )پر بدستور مضبوط گرفت رکھتے ہیں حالانکہ ان کے پاس اس پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں ہے۔ آج تک کی قانونی پوزیشن یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ کے صدر بن سکتے ہیں اور نہ ہی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں لہٰذا وہ وزیراعظم بھی نہیں بن سکتے مگر وہ بادشاہ گر ضرور ہیں جسے چاہیں وزیراعظم بنوا دیں، جسے چاہیں وزیر مشیر اور پارٹی عہدہ صدارت سمیت دے دیں۔ کل ہی مریم نوازشریف صاحبہ کو مسلم لیگ( نواز) کے نائب صدر سے سینئر نائب صدر بنا دیا گیا ہے۔ پارٹی کو آرگنائز کرنے کی ذمہ داری بھی انہیں سونپی گئی ہے۔ جس طرح مریم نوازکو پارٹی میں پروموٹ کیا گیا ہے، ایسا ہی دوسری پارٹیوں میں بھی خاندان کے زیر اثر رکھنے کی روایت ہے۔ اسی کو موروثیت کہا جاتا ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اگر سیاست دان کی اولاد واقعی اہلیت اور قابلیت رکھتی ہے تو اسے سیاست میں ضرور آنا چاہیے۔ امریکہ میں بھی ایک صدر کا بیٹا صدر بن جاتا ہے مگر ہر صدر کا بیٹا نہ تو سیاست دان ہوتا ہے نہ ہی صدر بن سکتا ہے۔ ہمارے ہاں ہر سیاستدان کی اولاد کے گلے میں سیاست کا ڈھول ڈالنا لازم ہو چکا ہے۔ کوئی بینظیر بھٹو کی طرح لائق اور ہونہار ہو یا پھر آج کی بہت سی بگڑی اولادوں کی طرح کھلنڈرا ،نابکار اور نالائق ہو۔ کچھ تو محض دولت کے انبار لگانے کے لیے سیاستدان بن جاتے ہیں۔ موروثیت کس پارٹی میں نہیں ہے؟ پیپلزپارٹی، نوازلیگ، اے این پی، بی این پی، جے یو آئی، جمہوری وطن پارٹی ،پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، مسلم لیگ ق وغیرہ وغیرہ اگر کوئی پارٹی موروثیت سے اب تک محفوظ ہے تو وہ جماعت اسلامی ، پی ٹی آئی، پاکستان عوامی پارٹی اور پنجاب نیشنل پارٹی ہے۔
عموماً کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر، انجینئر کا بیٹا انجینئر، سائنسدان کا بیٹا سائنسدان، پائلٹ کا بیٹا پائلٹ، ٹیچر کا بیٹا ٹیچر، تاجر کا بیٹا تاجر بن سکتا ہے تو سیاستدان کا بیٹا سیاستدان کیوں نہیں بن سکتا۔ کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ جنرل کا بیٹا جنرل بن سکتا ہے تو سیاستدان کا بیٹا یا بیٹی سیاستدان بھی بن سکتے ہیں۔ ڈاکٹر ،انجینئر، ٹیچر بننے کے لیے ایک تعلیمی معیار اور کرائیٹیریا ہے۔ جنرل کا بیٹا ڈائریکٹ جنرل نہیں بن سکتا، اسے گریجوایشن کے بعد کڑے ٹیسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے پھر کئی سال کی ٹریننگ ہے اور جنرل بننے تک کئی دہائیاں لگتی ہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان اور ٹیچر بننے کے لیے بھی تعلیمی معیار مقرر ہے مگر سیاستدان بننے کے لیے کیا معیار ہے، کیا کوالیفکیشن ہے۔ پکوڑے بنانے والا، ڈھاباچلانے والا سیاست میں آ سکتا ہے۔ ہمارے بڑے سیاستدانوں کی اولاد کی تو تعلیم بھی ادھوری رہ جاتی ہے۔
پاکستان ترقی کی منازل صرف اس لیے ہی طے نہیں کر پا رہا کہ جمہوریت میں شفافیت نہیں ہے۔ پڑھے لکھے لوگوں کی سیاست میں حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ جنرل مشرف کے دور میں گو کہ اسمبلی میں جانے کا ایک تعلیمی معیار نیک نیتی سے مقرر نہیں کیا گیا تھا مگر ایک معیار تو مقرر کر دیا گیا تھا۔ مشرف نے یہ معیار نوابزادہ نصراللہ خان کو اسمبلی سے باہر رکھنے کے لیے مقرر کیا تھا۔ وہ گریجوایٹ نہیں تھے۔ بہرحال قومی اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لیے تعلیم کو ضروری قرار دیا گیا تو اس سے پڑھے لکھے لوگوں کے سیاست میں آنے کی امید پیدا ہوئی مگر اس معاملے میں بھی فراڈ ہونے لگا۔ جعلسازوں کی کھیپ جعلی ڈگریاں بنواکر اسمبلیوں میں آنے لگی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کے اسمبلیوں میں جانے کا رحجان تو بڑھا تھا مگر یہ بھی قابل قبول نہ ٹھہرا۔ مشرف قانون یہ بھی بنا گئے تھے کہ وزیراعظم صرف دو بار ہی کوئی شخص بن سکتا ہے۔ اس قانون کے تحت میاں نوازشریف تیسری بار وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ زرداری صاحب کی گریجوایشن نہیں تھی لہٰذا دونوں نے ایک دوسرے پر احسان کیا ،گریجوایشن اور تیسری بار وزیراعظم نہ بننے کے قانون کو 18ویں ترمیم کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔
قارئین!جنرل مشرف کی نیت پر تو شک کیا جا سکتا ہے مگر انہوں نے پاکستان میں خاندانی اور موروثی سیاست کو جب ختم کرنا چاہا تو بے شمار لوگ جنہیں میں آپ بڑا پڑھا لکھا سمجھتے تھے وہ بے نقاب ہو گئے۔خاص طور پر جنوبی پنجاب اور سندھ کے بے شمار امرائ، مخدوم، لغاری، مزاری، تالپوراور بے شمار چوہدری بھی اس قانون کی زد میں آ گئے۔جن میں نہ صرف نوابزادہ نصراللہ خان بلکہ حامد ناصر چٹھہ ،غلام مصطفی کھر اور بیگم عابدہ حسین کے متعلق بھید کھلا کہ یہ لوگ انگلینڈ کے سکول میں پڑھے تو ضرور ہیں مگر ان کی گریجوایشن مکمل نہیں ہے۔ اور اس وقت کے سروے کے مطابق پاکستان میں گریجوایٹس کی تعداد صرف 1.3 فیصدتھی یعنی سو میں سے صرف ڈیڑھ فیصد لوگ گریجوایٹس تھے۔اور مشرف دور میں ہونے والے دونوں الیکشنز میں یہ طبقہ الیکشن میں حصہ نہ لے کر سیاست میں بہت پیچھے رہ گئے اور طوعاً کراہاًان کو اپنی اولادوں اور قریبی عزیزوں کو آگے لانا پڑ گیا۔اور ان نابلدوں کے سیاست میں آنے سے پاکستان کی مجموعی سیاست ،معیشت اور اخلاقیات پر بے شمار منفی اثرات پڑے۔قارئین ان سب حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ جب تک پاکستان کے عوام کو ایجوکیٹ نہیں کیا جائے گا نہ تو عمران خان یا کوئی اور سیاسی پہلوان یہ معاشرہ سدھار سکتا ہے اور نہ ہی انہیں بہتر قوم بنا سکتا ہے۔کیونکہ ایک بہتر قوم بننے کے لیے معاشرے کے ہر فرد کا تعلیم یافتہ اورباشعور ہونا لازمی ہے۔
عموماً کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر، 
انجینئر کا بیٹا انجینئر، سائنسدان کا بیٹا 
سائنسدان، پائلٹ کا بیٹا پائلٹ، 
ٹیچر کا بیٹا ٹیچر، تاجر کا بیٹا تاجر بن
 سکتا ہے تو سیاستدان کا بیٹا سیاستدان
 کیوں نہیں بن سکتا۔ کچھ لوگ تو 
کہتے ہیں کہ جنرل کا بیٹا جنرل 
بن سکتا ہے تو سیاستدان کا بیٹا یا بیٹی 
سیاستدان بھی بن سکتے ہیں۔

مزیدخبریں