اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان ’بلے‘ سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمشن کی اپیل منظور کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا جس کے بعد پی ٹی آئی کو ’بلے‘ کا انتخابی نشان نہیں ملے گا۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ میں درخواست ناقابل سماعت تھی، ایک وقت میں دو ہائیکورٹس میں کیس نہیں چل سکتا، پی ٹی آئی نے شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کے شواہد پیش نہیں کیے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملک جمہوریت نے دیا، الیکشن کمشن آئینی ادارہ ہے، سیاسی جماعتیں انٹرا پارٹی انتخابات کی پابند ہیں۔ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان دینے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمشن کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو رات کو سنایا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمشن کی اپیل پر سماعت کی۔ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن کمشن کے پاس کوئی پاور ہے نہ ہی کوئی دائرہ اختیار کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن کا جائزہ لے اور ان کو کالعدم قرار دے، الیکشن کمشن کے پاس یہ بھی اختیار نہیں کہ وہ کسی سیاسی پارٹی کو کسی مبینہ بے ضابطگی پر نشان الاٹ نہ کرے، آئین اور قانون الیکشن کمشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی سکروٹنی کا اختیار نہیں دیتا، ایک نشان پر انتخاب لڑنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے، انتخابی نشان سے محروم کرنا سیاسی جماعت اور عوام کے بنیادی حق کی نفی کرنا ہے، الیکشن کمشن کورٹ آف لاء نہیں ہے اس لیے وہ آرٹیکل 10اے کے تحت شفاف ٹرائل نہیں کرسکتا، تحریک انصاف کے کسی ممبر نے انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج ہی نہیں کیا۔ علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بیس روز میں انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا حکم دیا، ہمارے پاس دس روز تھے، اگر بیس دن میں الیکشن نہ کراتے تو الیکشن کمشن ہماری سیاسی جماعت کو سیاست سے ہی باہر کر دیتا، انٹرا پارٹی الیکشن چیلنج کرنے والے ہمارے ممبر ہی نہیں، الیکشن کمشن نے اپنے فیصلے میں بے قاعدگی کی نشان دہی نہیں کی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے، انٹرا پارٹی الیکشن کا بنیادی سوال یہ ہے کہ ممبران کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع ملا یا نہیں، اعتراض کیا گیا کچھ ممبران کو انٹرا پارٹی الیکشن میں شمولیت کا حق نہیں دیا گیا، اکبر ایس بابر کا موقف ہے کہ وہ ممبر ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کہا الیکشن کمشن نے قانونی و حقائق میں بدنیتی کی، آپ کو بدنیتی ثابت کرنی پڑے گی۔ الیکشن کمشن نے اس وقت کارروائی شروع کی جب تحریک انصاف حکومت میں تھی، آپ تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں الیکشن کمشن اتنا خود مختار ہے کہ جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی اس وقت کارروائی شروع کی۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے اپنے گھر میں جمہوریت نہیں چاہیے لیکن باہر جمہوریت چاہیے، سیاست ہے ہی جمہوریت، آپکو سیاست چاہیے لیکن جمہوریت نہیں چاہیے۔ تحریک انصاف نے تو اپنے ہی ممبران کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جب آپ لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کر رہے ہیں، پی ٹی آئی میں بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ ہونی چاہیے، تحریک انصاف نے تو اپنے ہی ممبران کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ کی جماعت کا تو نعرہ رہا لوگوں کو بااختیار بنانا ہے ، آپ نے اپنے ہی ممبران کو حق نہیں دیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کسی سیاسی جماعت کا سرٹیفیکیٹ یہ عکاسی کرتا ہے الیکشن ہوئے، آپ کی پارٹی انٹرا پارٹی الیکشن سے کیوں گھبرا رہی ہے۔ الیکشن کمشن تو اس وقت سے کہہ رہا ہے انٹرا پارٹی الیکشن کرائیں جب آپکی حکومت تھی، آپ ہمیں ایک دستاویز تک نہیں دکھا پا رہے، اگر چھ ماہ تک کیس چلانا ہے تو پھر فیصلہ معطل کرنا پڑے گا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کو یا حامد خان کو کیوں نامزد نہیں کیا گیا، سب نئے نئے لوگ پی ٹی آئی میں آ گئے، پرانے لوگ کہاں گئے، جب ایک دم سے نئے چہرے آگئے، تو کیا یہ ہو سکتا ہے سیاسی طور پر جماعت کو ہتھیا لیا گیا ہو۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا بغیر پینل الیکشن نہیں ہو سکتا، کیا یہ جمہوریت کے برعکس نہیں، چار لوگوں نے مل کر پوری سیاسی جماعت بانٹ لی، پی ٹی آئی کی فنڈنگ کا بھی 2014 سے معاملہ پڑا ہے جو آپ چلنے نہیں دیتیحامد خان کا زیادہ حق ہے، چیئرمین بننے کا یا گوہر خان کا؟چیف جسٹس نے کہا کہ مئی 2021ء سے الیکشن کمشن نے انتخابی نشان سے متعلق نوٹس کیا، پی ٹی آئی نے کرونا کا بہانہ کر کے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، اگر جماعت میں آپ پرانے لوگ رکھیں تو ان کو تجربہ ہوتا ہے، ویسے ہی پوچھ رہا ہوں حامد خان کا زیادہ حق ہے چیئرمین بننے کا یا گوہر خان کا؟ علی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن کمشن نے 175 سیاسی جماعتوں میں سے کسی اور کے پارٹی انتخابات کالعدم نہیں کیے۔ ہمایوں اختر کیس میں الیکشن کمشن نے قرار دیا تھا کہ پارٹی انتخابات کیس میں ہم مداخلت نہیں کر سکتے، ق لیگ میں بھی پارٹی انتخابات درست نہ ہونے کا سوال تھا، لیکن میری جماعت کو تو عملا تحلیل کر دیا گیا۔ تحریک انصاف نے تو خود پر خودکش حملہ کردیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جب ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہٹایا گیا اس وقت تو یہ بات نہیں کی گئی، دھرنا نظرثانی درخواستیں واپس لے لی گئیں، پہلے بھی آپ نے ہاؤس تحلیل کر دیا۔ اس وقت اسمبلیاں تحلیل کرکے آئین کی خلاف ورزی کی گئی، تحریک انصاف نے تو خود پر خودکش حملہ کردیا۔ پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد نورین فاروق روسٹرم پر آ گئیں اور کہا کہ میں نوے کی دہائی سے تحریک انصاف کے ساتھ رہی، میں ابھی تک پی ٹی آئی میں ہوں میں الیکشن لڑنا چاہتی تھی مجھے بتایا گیا کہ انٹرا پارٹی الیکشن بس ایسے ہی ہو رہا ہے۔اس کے بعد بلال اظہر رانا روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میں 1996ء سے پی ٹی آئی میں ہوں اور میں بھی پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن لڑنا چاہتا تھا مگر مجھے کاغذات نامزدگی تک نہ دیے گئے حالیہ واقعہ ہوا جس کے سبب لوگ پارٹی چھوڑ گئے۔ بعدازاں اکبر ایس بابر کے وکیل نے دلائل دیے اور کہا کہ ہم نے پی ٹی آئی کے عبوری آئین کی بھی نقل فراہم کی ہے آئین سازی کے عمل میں حامد خان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے ہیں، سیکرٹری الیکشن کمشن کو انتخابی نشان بلے کیلئے درخواست اکبر ایس بابر کے ذریعے دی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دو ہزار دو سے پہلے پی ٹی آئی کا کیا انتخابی نشان تھا؟ عمران خان نے ایک شوکاز نوٹس حامد خان کو بھی جاری کیا جو کہ 2019ء کو دیا گیا تھا، حامد خان صاحب نے ایک جواب جمع کرایا تھا، بطور ممبر الیکشن کمشن اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے مجھے تسلیم کیا، کئی مرتبہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کے خلاف درخواستیں دائر ہوتی رہیں، دو ہزار چودہ میں ممنوعہ فنڈنگ کیس شروع ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان نے تسلیم کیا اکبر ایس بابر فاؤنڈنگ ممبر ہیں۔وکیل اکبر ایس بابر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کیلئے کاغذات نامزدگی نہیں دیے گئے، ہم الیکشن کمشن کے موقف کی تائید کرتے ہیں، جب ایک عدالتی فورم چن لیا جائے تو دوسرے فورم سے رجوع کرنا فورم شاپنگ کہلاتا ہے، تحریک انصاف کا پہلا انتخابی نشان چراغ تھا۔ بعدازاں اکبر ایس بابر کے وکیل کے دلائل مکمل ہوگئے۔ الیکشن کمشن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل شروع کیا جس پر چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ یہ دلیل دی گئی ہے کہ الیکشن کمشن غیر منصفانہ سلوک کررہا ہے اس پر وکیل الیکشن کمشن نے کہا کہ گزشتہ روز تیرہ سیاسی جماعتوں کو ڈی لسٹ کیا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی کو وقت دیا گیا الیکشن بعد میں کرالے عوامی نیشنل پارٹی کے اگلے انٹرا پارٹی انتخابات میں ابھی پانچ سال مکمل نہیں ہوئے۔ الیکشن کمشن نے کہا کہ اے این پی کو مہلت پانچ سال کی مدت میں رہتے ہوئے دی گئی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ نے درخواست منظور کرلی تو پھر تو پرانے جیت جائیں گے، پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کیوں نہیں ہوتے رہے؟ وکیل الیکشن کمشن نے کہا کہ میں قیاس آرائیوں پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ دریں اثناء عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی کو بلے کا نشان بحال کرنے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، فیصلے کے تحت پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لے لیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمشن نے پی ٹی آئی کو انٹراپارٹی انتخابات کرانے کا نوٹس 2021 میں کیا، الیکشن کمشن نے پی ٹی آئی کو جون 2022ء تک انتخابات کرانے کا وقت دیا، الیکشن کمشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا کہا، بصورت دیگر انتخابی نشان لینے کا بتایا گیا، پی ٹی آئی کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ 5 رکنی بنچ بنا جو زیر التوا ہے، پی ٹی آئی نے دوبارہ انتخابات کرا کر بھی لاہور ہائی کورٹ میں اپنی درخواست واپس نہیں لی۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے 22 دسمبر تک پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلہ کرنے کو کہا، الیکشن کمشن نے 22 دسمبر کو کہا پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات درست نہیں کرائے، الیکشن کمشن نے انٹراپارٹی انتخابات درست نہ کرانے پر انتخابی نشان پی ٹی آئی سے لیا، لاہور ہائی کورٹ کے سنگل جج نے 3 جنوری کو فیصلہ دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی نے درخواست دائر کرتے ہوئے نہیں بتایا کہ ایسی ہی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں پانچ رکنی بنچ کے سامنے زیر التوا ہے۔ ایک معاملہ ایک ہائی کورٹ میں زیر التوا ہو تو دوسری ہائی کورٹ میں نہیں چیلنج ہو سکتا، پی ٹی آئی نے الیکشن کمشن پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا، عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ الیکشن کمشن نے 13جماعتوں کے انتخابی نشان لیے، الیکشن کمشن نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انتخابات نہیں کرائے، پی ٹی آئی کے14 اراکین کی درخواست یہ کہہ کر ہائی کورٹ نے مسترد کی کہ وہ ممبران ہی نہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان جمہوریت سے وجود میں آیا، پاکستان میں آمریت نہیں چل سکتی، ثابت نہیں ہوتا کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات کرائے، دریں اثناء رات گئے سنائے فیصلہ کے بعد پی ٹی آئی امیدوار آزاد تصور ہوں گے جبکہ مخصوص سیٹیں بھی ہاتھ سے نکل گئیں۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی کے بلے کے نشان کے کیس کی سپریم کورٹ اف پاکستان میں سماعت کے پیش نظر الیکشن کمشن آف پاکستان نے انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے وقت میں چھ بار توسیع دی، انتخاب نشان الاٹ کرنے کے کیس بارے عدالت عظمی کے فیصلہ کے سامنے آنے کے بعد الیکشن کمشن آف پاکستان نے تمام انتخابی امیدواروں کی انتخابی نشانات کے ساتھ حتمی فہرست مرتب کر لی ہے جو کسی وقت جاری کر دی جائے گی۔ سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے وجہ سے الیکشن کمشن آف پاکستان کے دفاتر کھلے رہے، اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں ریٹرننگ افسروں کے دفاتر کو بھی کھلا رکھا گیا، الیکشن کمشن آف پاکستان نے اخری توسیع رات ساڈھے 11 سے بڑھا کر 12 بجے کی، جبکہ انتخابی نشانات الاٹ کرنے کا اصل آخری وقت چار بجے شام تھا، اس میں شب 12 بجے تک بار بار تو توسیع کی جاتی رہی۔ واضح رہے کی سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو بلے کا نشان دینے کے بارے میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ دریں اثناء پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر گوہر علی خان نے عدالتی فیصلے پر ردعمل میں کہا ہے کہ فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل کریں گے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اب تاریخ اس فیصلے پر فیصلہ کرے گی۔ میڈیا سے گفتگو کرتے علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار اب آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔ ہمیں اندازہ تھا کہ فیصلہ کیا ہو گا ہماری تیاری پوری ہے۔ آٹھ فروری کو الیکشن ہے پی ٹی آئی بھرپور طریقے سے الیکشن لڑے گی۔ پارٹی کو نہیں چھیڑا گیا صرف انتخابی نشان لیا گیا ہے ہماری جماعت کے امیدواروں کو الیکشن لڑنے سے نہیں روکا گیا۔
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان کو ’’چینک‘‘ کا انتخابی نشان الاٹ کر دیا گیا ہے۔ نجی ٹی وی نے گوہر علی خان سے سوال کیا کہ سنا ہے آر اوز نے آپ کو ’’چینک‘‘ کا انتخابی نشان الاٹ کر دیا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی گوہر علی خان نے کہا کہ مجھے ابھی خبر ملی ہے آر اوز نے مجھے ’’چینک‘‘ کا انتخابی نشان الاٹ کیا ہے پتا نہیں کہ آر اوز نے ایسا کیسے کر دیا ہے۔ دریں اثناء گوجرانوالہ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدواروں نے پی ٹی آئی نظریاتی کے ٹکٹ واپس لینے کیلئے درخواستیں جمع کروا دیں۔ پی ٹی آئی امیدواروں کی جانب سے درخواستیں ریٹرننگ آفیسرز کو جمع کروائی گئیں۔ جن میں کہا گیا کہ آزاد امیدوار کا نشان الاٹ کیا جائے۔ ریٹرننگ افسران نے پی ٹی آئی امیدواروں کی درخواست پر آزاد نشان الاٹ کر دیئے۔ قومی اسمبلی کے حلقے این اے 79 سے پی ٹی آئی امیدوار رانا ساجد شوکت کو وکٹ انتخابی نشان مل گیا۔ پی ٹی آئی امیدوار ارقم خان کو ریکٹ انتخابی نشان مل گیا۔ این اے 66 سے پی ٹی آئی امیدوار احمد چٹھہ کو پیالہ انتخابی نشان الاٹ کر دیا گیا، جبکہ پی ٹی آئی کے ایک اور امیدوار سہیل ظفر چیمہ نے بھی پیالہ انتخابی نشان لے لیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ناصر چیمہ کو رولر کوسٹر انتخابی نشان الاٹ کر دیا گیا جبکہ پی ٹی امیدوار بلال ناصر چیمہ کو انتخابی نشان سٹیبلائزر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور پی ٹی آئی امیدوار آصف کو انتخابی نشان میز دے دیا گیا۔