قدرتی وسائل بروئے کار لائے جائیں تو ہمیں کسی غیرملکی امداد یا قرضہ کی قطعاً ضرورت نہیں لیکن افسوس ہے کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں رہنے والے معاشی جادوگروں کے دلوں سے غلامی کی رمق ابھی تک نہیں نکل سکی۔ یہی وجہ تھی کہ 1985 میں تربیلا ڈیم کی دو ٹنلوں پر 1750 میگاواٹ حاصل کرنے کے بعد جب ورلڈ بینک کی طرف سے پرائیویٹ سیکٹر میں بجلی گھر بنانے کی امید دلائی گئی تو 1728 میگاواٹ کی تیسری ٹنل کو بھول کر عالمی بینک کے قرض کے حصول کیلئے کوشاں ہوئے۔ 1987 میں نجی سیکٹر میں حبکو پاور کے تحت فرنس آئل سے چلنے والا 1292 میگاواٹ کا بجلی گھر منظور کیا گیا جو 1991 میں مکمل ہوا۔ اس کے مکمل ہونے پر تربیلا ڈیم کی تیسری ٹنل کا سوچا گیا جس کی تکمیل 1993 میں ہوئی۔ 1410 میگاواٹ کی چوتھی ٹنل کو شروع کرنے کے بجائے 1994 میں تھوک کے حساب سے پرائیویٹ سیکٹر میں بجلی گھر منظور کئے گئے اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آج تک جاری و ساری ہے۔ تیل اور دیگر فیول کے ذریعے بننے والے پرائیویٹ بجلی گھروں کو فیول دینے کیلئے بھی سرکار کے پاس فنڈز نہیں ہوتے جس کا بوجھ بھی عوام نہیں، رعایا کو اٹھانا پڑتا ہے۔ حکومت کو احساس ہوا کہ آبی منصوبوں کو مکمل کرکے ہی مہنگی بجلی سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے بھی معاشی جادوگروں نے ہمارے سستی بجلی پیدا کرنیوالے پاور ہاؤسز کو انوسٹمنٹ حاصل کرنے کیلئے فروخت کرنے کا سوچا۔ چہ معنی دارد! یعنی جو بجلی ہم سستے داموں حاصل کر رہے ہیں، وہی بجلی تیل کے بجلی گھروں سے بھی زائد قیمت پر ہم حاصل کرینگے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کیمطابق کالاباغ ڈیم کے بجائے مہمند اور بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کی گئی جو پہلے ہی حکومت منظور کر چکی تھی۔ باوجودیکہ بھاری قرضوں کے بعد بھی ان دونوں پراجیکٹس کیلئے معقول فنڈز نہیں رکھے گئے۔ سابقہ چیئرمین واپڈا کے دور میں سکوک بانڈز جاری کئے گئے جس کیلئے 2850 ملین ڈالرز کی آفر مناسب انٹرسٹ پر آئیں۔ جن میں سے 500 ملین ڈالر حاصل کر لئے گئے۔ اس سے مہمند ڈیم کے مکمل ہونے کی امید پیدا ہوئی۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے موجودہ حکومت کے معیشت دانوں نے 1450 میگاواٹ کے غازی بروتھا ڈیم کے 30% شیئرزکویت کو 80 سے 90 کروڑ ڈالر میں فروخت کرنے کی پلاننگ کی۔ غازی بروتھا ڈیم سالانہ تقریباً 7 ارب یونٹ پیدا کرتا ہے جس کی فی یونٹ لاگت صرف 1.25 روپے ہے۔ اس طرح سات ارب یونٹوں کے پیداواری اخراجات صرف 8 ارب 75 کروڑ روپے آتے ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق نیپرا کو درخواست دائر کر دی گئی ہے کہ غازی بروتھا سے فی یونٹ بجلی کا ٹیرف بڑھا کر 10 روپے فی یونٹ کیا جائے تاکہ متذکرہ شیئرز کو مناسب منافع دیا جا سکے۔ اس طرح غازی بروتھا سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت 70 ارب روپے سالانہ ہو جائے گی۔ اندازہ لگائیں کہ اگر 90 کروڑ ڈالر ($1@Rs. 282) 253 ارب 80 کروڑ رپے کی انوسٹمنٹ پر سالانہ 61 ارب 25 کروڑ روپے زائد ادا کرنا پڑیں گے۔ اس طرح صرف 4 سال 2 ماہ میں حاصل کی گئی انوسٹمنٹ کا کل واپس کر دینگے۔ افسوس ہوتا ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود ہمارے حکمرانوں کو غیرملکی قرضوں کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ بلوچستان میں تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 7700 مربع کلومیٹر سے سالانہ 42.5 ارب یونٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جو اس وقت قومی پیداوار کا تقریباً 30فیصد بنتی ہے لیکن اس طرف کوئی توجہ دینے کے بجائے ایران سے پہلے 104 میگاواٹ بجلی امپورٹ کی جاتی تھی۔ چند ماہ قبل ایران سے مزید 100 میگاواٹ بجلی 8.4 سے 12.4 سینٹ کے درمیان خریدی جائیگی۔ ونڈ مل کے بیشتر حصے اسٹیل ملز میں ہی بنائے جا سکتے ہیں، ٹرانسمیشن لائن کیلئے پول اور تاریں بھی بن سکتی ہیں جس سے ان دونوں امور میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ یہی نہیں ریلوے لائنوں کے لئے پٹری بھی کراچی اسٹیل میں بنانے کا کوئی مسئلہ نہیں۔
پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ لاگت 13سینٹ ہے جبکہ ٹیکسز اوردیگر ڈیوٹیز کے ساتھ اس کی لاگت 20 سینٹ تک جا پہنچتی ہے جو جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے۔ ہمارے پاس خام مال وافر مقدار میں موجود ہے لیکن اسے ویلیو ایڈڈ بنانے کیلئے بھاری اخراجات آتے ہیں۔ ان حالات میں ہماری پراڈکٹس عالمی مارکیٹس میں کس طرح جگہ بنائیں گی؟ سی پیک کے روٹس پر 9 صنعتی زون بنانے کا بھی پروگرام ہے لیکن بجلی کے بھاری نرخ کی وجہ سے یہاں صنعتیں کون لگائے گا؟ اس وقت بھی پبلک سیکٹر میں ہائیڈل بجلی کی پیداواری لاگت چار روپے سے بھی کم ہے۔ پبلک سیکٹر میں ونڈمل اور سولر کے پراجیکٹ لگائے جائیں تو کسی بھی فیول کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ بجلی سستی ہوگی تو پوری دنیا کے انوسٹر بھاگے ہوئے پاکستان آئیں گے جس سے نہ صرف ہمارا خام مال ویلیو ایڈڈ ہو کر عالمی منڈیوں میں اپنی جگہ بنائے گا بلکہ صرف پانچ سال میں تجارتی توازن بھی پاکستان کے حق میں ہو سکتا ہے۔
قومی معیشت کو مشکلات سے نکالنے کیلئے حکومت نے Special Investment Facilitation Council (SIFC) قائم کرکے اچھا قدم اٹھایا ہے۔ اگر صحیح نہج پر کام کیا جائے تو اس کونسل کے تحت پاکستان کو معیشت کے گرداب سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کیلئے فارن انوسٹمنٹ کیساتھ لوکل ذرائع پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپ نے یقینا محسوس کیا ہوگا کہ جب بھی استحکام نظر آتا ہے تو نہ صرف ملکی کرنسی کی قیمت میں بہتری آتی ہے بلکہ اسٹاک ایکسچینچ کا انڈکس بھی تیزی سے اوپر آتا ہے۔ میری تجویز ہے کہ آبی اور توانائی کے منصوبوں کی تعمیر کیلئے چیمبرز آف کامرس کو اعتماد میں لیا جائے، انہیں سہولیات دی جائیں تو بھاری انوسٹمنٹ سے تمام پراجیکٹ مکمل کئے جا سکتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ آبی وسائل بڑھنے سے نہ صرف خام مال وافر مقدار میں ملے گابلکہ سستی بجلی کے ذریعے صنعتوں اور دیگر کاروبار زندگی میں بہتری آئیگی۔ اس طرح عام پاکستانی کا معیار زندگی بھی بہتر ہوگا۔