رائیٹرز گلڈ ٹرسٹ کا اجلاس تھا۔ پشاور سے سیکرٹری خیبر پختون خواہ اسیر منگل اور شیر ولی خان اورک زئی، کوئیٹہ سے سیکرٹری بلوچستان حلیم مینگل، فیصل آباد سے مرکزی مجلس عاملہ کے رکن اخلاق حیدر آبادی )۔ دوسرے رکن مرکزی مجلس عاملہ معروف دانشور وحید رضا بھٹی ان دنوں شدید علیل ہیں۔ اللہ انہیں مکمل شفا دے (لاہور سے پنجاب کے سیکرٹری یہ خاکسار اور ہمارے ساتھ ٹرسٹ کی ٹریڑرر اور ماہنامہ تحریریں کی مدیرہ زاہدہ صدیقی اور ساتھ ٹرسٹ کی چیئرپرسن اور جریدہ نقوش کی مدیرہ اور محمد طفیل مرحوم کی پوتی فرح جاوید نے اپنے پنجاب عاملہ کے اراکین سلطان رشک اور اسلم کمال کی مغفرت کے لے ہاتھ اٹھائے تو لمحہ بھر کیلئے ایک زمانہ نظروں کے سامنے تھا۔ اجلاس میں قائم مقام سیکرٹری جنرل کیلئے بلوچستان کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد خیبر پختون خوا ہ کی نامور ادیبہ بشری فرخ کے نام پر حاضرین نے اتفاق کیا۔اس کے ساتھ ساتھ سندھ میں صوبائی شاخ کے عہدیداروں کی متفقہ باڈی کے مسئلے کے حل کیلئے بلوچستان کے سیکرٹری حلیم مینگل کو رابطہ کار کی ذمہ داریاں دی گئیں کہ وہ احمدعمر شریف، شاداب احسانی اور نسیم درانی سے رابطہ کر کے مصالحانہ کردار ادا کریں اور احباب کو کسی متفقہ باڈ ی پررضامند کروانے کے لیئے اپنی کوششیں بروئے کار لائیں۔ تینوں صاحبا ن بڑے مرتبے کے حامل ہیں اور یقینی طور پرحلیم مینگل صاحب کی کاوشیں رنگ لائیں گی۔ منٹگرمی روڈ کی گلڈ کی اس تاریخی عمارت میں ایک وقت تھا کہ سلطان رشک اور اسلم کمال کی باتوں کی خوشبو پھیلی رہتی تھی۔ اب یہ حال ہے کہ وقت کی بے رحم ہوا چراغوں کو بجھائے چلی جا رہی ہے لیکن امید افزا بات یہ ہے کہ نئے چراغ بھی سامنے آ رہے ہیں۔ سیاست کی زہر آلود فضا میں ادبی جریدوں اور قلم کے پھول بکھیرنے والوں کا وجود غنیمت ہوا کرتا ہے۔ اگرچہ ا ب یہاں بھی چل چلائوہے لیکن نا امیدی بھی نہیں۔ ادبی جریدوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو اظہر جاوید نے جس طرح اپنے چاہنے والوں کو اداس کیا تھا اسی طرح اب سلطان رشک سب کو اداس کر گئے۔ حکیم یوسف حسن نے ادبی جریدے نیرنگ خیال کا پودا لگایا اور سلطان رشک نے اس کو ادب کے ثمر بار شجر کی صورت دی۔ اب سعد سلطان نے اعلان کیا ہے کہ وہ نیرنگ خیال کے شجرسایہ دار کو ماضی کا حصہ نہیں بننے دیں گے۔ اس سے پہلے اظہر جاوید کے فرزند سونان اظہر نے ایسا ہی نعرہ لگایا تھا اور وہ اپنے اعلان کے بعد نہ صرف سرخرو رہے بلکہ جریدے تخلیق کو مزید نکھارا۔ اس پس منظر میں امید کی جانی چاہئیے کہ نیرنگ خیال بھی نہ صرف جاری رہے گا بلکہ مزید نکھرے گا اور نیرنگ خیال کا ماہتاب 221G نزد پی ایم ہائوس راولپنڈی سے حسب سابق طلوع ہوا کریگا۔ سیاسی بے چینی نے ایک طرف جینا بے مزا کر رکھا ہے تو ساتھ ہی رفیقان طرح دار کی اس طرح جدائی مارے جارہی ہے۔گزشتہ ہفتے کی اداس کر دینے والی خبر پر ابھی تک لوگوں کو یقین نہیں آ رہا کہ پاکستان کے ممتاز آرٹسٹ ادیب مصور کلام غالب اور اقبال سفر نامہ نگار اور ایک قلم کار کے طور پر مختلف معاملات میں عملی جدوجہد کی حد تک ون مین آرمی اسلم کمال اب اپنی زبان سے یہ کبھی نہیں سنائیں گے کہ
اسلم ہے میرا نام کمال اس کا نام ہے
رہتے ہیں ایک ساتھ مگر بولتے نہیں۔
ایک متفقہ رائے ہے کہ انہوں نے اردو کو ایک نیا خوب صورت خط دیا اور اس مصورانہ خطاطی سے ایک نیا جہان آباد کیا۔ انکے فن پاروں کی نمائشیں پورے ملک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے اہم مقامات پرہوئیں۔ اپنی منفرد مصوری سے کتابوں کے ہزاروں دیدہ زیب سرورق بنائے۔ جو پاکستان کا ہی نہیں عالمی ریکارڈ بھی ہوسکتا ہے۔ ان کے خطاطی کے مخصوص انداز کو ’’خطِ کمال ‘‘ کا نام دیا گیا۔ اسلم کمال نے اقبال اور فیض کی شاعری کو مصور کیا تو ایوان اقبال لاہور سمیت مختلف اہم مقامات پر ان کے فن پاروں کے گوشے بنائے گئے۔ ان کا ایک اور خاص کام 500 پاکستانی ادیبوں کے کیری کیچر ہیں جو اکادمی ادبیات پاکستان میں ادبی کہکشاں کے عنوان سے لگے ہوئے ہیں۔ حکومت پاکستان نے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس کا اعزاز دیا۔ اسلم کما ل نے کار کمال کن کہ عزیزجہاں شوی جیسے فارسی کے مصرع کو عملی طور پر حقیقت بنایا تھا۔ انہوں نے (1)اسلامی خطاطی (2)قلم موقلم (3)اسلم کمال اوسلو میں (4)گمشدہ (5)لاہور سے چین تک (6)گردپوش (7)ادیبوں اور شاعروں کے کیری کیچر (8)کسبِ کمال(9) واقعات۔ جیسی تخلیقات بھی ادب کے چاہنے والوں کودیں۔ میری ان سے ابتدائی ملاقاتیں ادب کے ایک اہم لاہوری چہرے بشیر منذر کے ایبک روڈ پر واقع مینار آرٹ پریس پر ہوتی رہیں۔ان دنوں وہ اپنی تخلیقی خطاطی اور مصوری کے ساتھ ساتھ آمدنی کے ایک ذریعے کے طور پر روزگار کے لیے آرٹ کے حوالے سے تعاون کرتے تھے۔ ان دنوں بعض دوسرے ٹھکانوں کی طرح یہ پریس بھی ادیبوں کا تکیہ تھا۔ سہ پہر کے بعدمختلف احباب یہاں جمع ہو جاتے۔چائے کے ساتھ گپ شپ اور شعر و شاعری بھی جاری رہتی۔ مصورانہ خطاطی میں تو اسلم کمال اپنی ذات میں ایک مکمل دبستان تھے۔انہوں نے صادقین کے زمانے میں اپنی الگ شناخت بنائی اور اسلامی تہذیب وتمدن کو خاص طور پر خط کمال کی بنیاد بنایا۔ جن دنوں ان کا خط کمال اپنے کمال کو پہنچا ہوا تھا تو اچانک ایوان اقبال کے بورڈ آف ڈائریکٹر نے کسی کے اشارے پر ان کی ریگولر خدمات کا سلسلہ منقطع کر دیا۔چونکہ اسلام کمال صاحب میرے ریواز گارڈن کے آفس میں بھی اکثر آیا کرتے تھے تو ایوان اقبال کی ایک بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر مذکورہ فیصلے کو واپس لینے کے لئے ہم نے ایک یاداشت تیار کی جو میری طرف سے تھی۔ اور اگلے روز اس پر میں نے ایوان اقبال میں عین کانفرنس کے دوران تمام اہم شخصیات سے دستخط کروائے۔ دستخط کرنے والوں میں جناب مجید نظامی اور پروفیسر این میری شمل جیسی شخصیات شامل تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایوان اقبال میں نہ صرف جناب اسلم کما ل کی خصوصی تخلیقی گیلری بحال ہوئی بلکہ ان کی ریگولر خدمات کا سلسلہ بھی بحال ہو گیا۔ میں نے تین بار یہ منظر بھی دیکھا کہ اسلم کمال تنہا ایک بینر اٹھا کر گھنٹوں مال روڈ اور ایجرٹن روڈ پر احتجاج کرتے نظر آئے۔ وہ خوش پوش خوش خیال اور نڈر تخلیق کار تھے۔ جس محفل میں جاتے اس کی رونق میں اضافہ کر دیتے۔ غالب کے الفاظ میں۔
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
٭…٭…٭