سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار کون؟

روزنامہ تجارت سرگودھا کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ملک محمد معظم جو ماہراقبالیات پروفیسر مرزا محمد منور کے بھانجے ہیں اور طویل عرصہ روزنامہ وفاق سرگودھا سے بھی وابستہ رہے ہیں نے ایک مضمون اشاعت کے لئے مجھے بھیجا ہے۔ میں یہ گراں قدر مضمون قارئین نوائے وقت کے مطالعہ کے لئے آج کے کالم کا حصہ بنا رہا ہوں تاکہ سند رہے اورمورخین کے کام آسکے مضمون درج ذیل ہے۔
میرے پاس پاکستان کے دولخت کرنے کے حتمی فیصلہ کے بارے ایک اہم انکشاف قوم کی امانت کے طور پر موجود ہے ۔جب مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہواتو اس وقت میں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ایف اے کا طالب علم تھا میں نے سقوط ڈھاکہ کی ساری کہانی اپنی کھلی آنکھوں اور بیدار کانوں سے دیکھی اور سنی ،مجھے وہ سارا منظر آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔ 16دسمبر1971ء کا سارا دن ہمارے گھر میں صف ماتم کا سماں تھا ،میرے ناناجان مرزا ہاشم الدین نثار مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی خبرریڈیو پاکستان پر سنتے ہی اپنے سونے والے کمرہ سے دھاڑیں مارے ہوئے گھر کے اندر صحن میں آرہے تھے ،میرے ماموں جان پروفیسر مرزا محمد مظفر اپنے کمرہ میں ماتم کناں تھے ،ہمارے اردگرد کے گھروں سے بھی آہ وبکا کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ،گھر کے ہم سارے افراد ریڈیو کے اردگرد نانی جان کے کمرہ میں بیٹھے ہوئے تھے ،یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے ہمارے سروں پر تو آسمان آگرا ہے یا ہمارے سروں سے آسمان ہٹ گیا ہے تحریک پاکستان کے لئے میرے خاندان کی قربانیاں سرگودھا کی تاریخ میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ میرے سارا خاندان آبائو اجداد سے آستانہ عالیہ سیال شریف کی غلامی سے فیض یاب تھا اور آستانہ سیال شریف کا قیام پاکستان کے لئے کردار ہماری قومی تاریخ میں ایک بہت ہی نمایاں باب کی حیثیت رکھتا ہے اس کی تفصیل کے لئے کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور مزید کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں پروفیسر مرزا محمد منور مرحوم نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سرگودھا کے زیر اہتمام یوم پاکستان کی ایک بڑی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پیر صاحب آف سیال شریف شیخ الاسلام خواجہ محمد قمر الدین سیالوی اور ملک بھر میں آستانہ عالیہ سیال شریف سے وابستہ سلسلہ چشتیہ کے دیگر خانوادے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں بھرپور کردار ادا نہ کرتے تو شاید پاکستان معرض وجود میں نہ آسکتا ،اس بارے میں ساری تفصیل اور مرزا محمد منور کے خیالات ایک الگ موضوع ہے ۔
 پاکستان کے دولخت کرنے پر مہر تصدیق ثبت کرنے والی یہ تفصیل جو میرے پاس ایک امانت کے طور پر ہے اور میرے ذمہ لگائی گئی تھی کہ اسے تم نے اپنی موت سے پہلے قوم تک پہنچا دینا ہے ،میں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بارے میں بڑی بڑی کتابیں ،مضامین اور انٹرویو ملاحظہ کئے ہیں لیکن پاکستان توڑنے کے حتمی فیصلہ کے بارے میں جو معلومات میرے پاس ہیں وہ میں نے تو کہیں دیکھی نہیں ،ممکن ہے کہ بعض لوگوں کو یہ معلوم بھی ہوں اور بعض کتابوں یا مضامین میں تحریر ہوں میں لاہور میں پروفیسر مرزا محمد منور کی خدمت میں حاضر تھا میرے ساتھ میرے ہم دم دیرینہ جناب ممتاز عارف بھی موجود تھے پروفیسر مرزا محمد منور کے پاس ایک اور بزرگ شخصیت بھی موجود تھی جن کا تعارف مرزا محمد منور صاحب نے ہم دونوں سے کروایا تو تھا ،مرزا منور صاحب کی طبیعت ان دنوں علیل تھی وہ دو ہفتے ہسپتال میں داخل رہنے کے بعد گھر آئے ہوئے تھے اس دن مرزا منور صاحب نے ہم سے یہ بھی فرمایا کہ میری زندگی کے اب آخری ایام ہیں نہ جانے کس وقت بلاوا آجائے ،میں ایک امانت تمہیں سونپ رہا ہوں اسے کہیں تحریر کرلینا اور میری قوم تک پہنچا دینا ،جس پر میں نے بڑے آزردہ لہجہ میں عرض کی کہ اللہ تعالیٰ میری زندگی بھی آپ کو لگا دے میرے جیسے لوگ تو ویسے بھی اس زمین پو بوجھ ہیں ،اس ملک کو اس قوم کو بلکہ امت مسلمہ کو آپ کی ضرورت ہے ،جس پر مرزا صاحب نے فرمایا کہ نہیں بس اب جانے کا فیصلہ ہوگیا ہے کچھ دنوں کی بات ہے۔ میں نے سفر آخرت باندھ لیا ہے قوم کی ایک امانت ہے تم اسے اپنی زندگی کے کسی لمحہ میری قوم تک پہنچا دینا اس موقع پر میرے اورممتاز عارف کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔میں اس لئے بھی پھوٹ پھوٹ کر اور ٹوٹ کر رویا کہ  میں نے اپنے ماموں جان مرزا محمد منور صاحب کی بیماری اورمسلسل خرابی صحت کی وجہ سے میں نے ان کو انکی سگی بہن اور اپنی والدہ محترمہ کی وفات کی خبر بھی نہیں دی تھی ،میں اس لمحہ ایک ہی وقت میں اکٹھا دوصدمات برداشت کررہا تھا اس کیفیت میں مزید جی کر میں نے کیا کرنا تھا ،بہر کیف اللہ تبارک وتعالیٰ کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ 
پروفیسر مرزا محمد منور صاحب نے مجھے اور ممتاز عارف سے کہا کہ تمہیں ایک بات بتائوں کہ پاکستان کس تاریخ کو دولخت ہوا تھا میں جھٹ سے بولا کہ 16دسمبر 1971ء کو ۔۔۔ مرزا صاحب نے فرمایا کہ نہیں اس تاریخ کو مشرقی پاکستان ہم سے روٹھ گیا تھا دولخت نہیں ہوا تھا دو لخت اس دن ہوا جب شیخ مجیب الرحمن لاہور سے روتے ہوئے لندن پرواز کرگیا تھا،مرزامحمد منور صاحب کی آنکھوں میں آنسو بھی تھے اور وہ بہت ٹھہر ٹھہر کر بول رہے تھے مسلسل مجھے دیکھے جارہے تھے فرمایا پاکستان 2جنوری 1972ء کو ٹوٹا ،جب شیخ مجیب الرحمن لندن اتر گیا تھا ،کیونکہ اسکے پاس پاکستان بچانے اور اسے متحد رکھنے کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی تھی ،مرزا صاحب نے اپنے رومال سے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا کہ سنو کیا ہوا ہے ہمارے ساتھ ۔’’اب میرے پاس جو قوم کی امانت ہے وہ میں قوم کے حوالے کررہا ہوں‘‘ ’’پروفیسر مرزا محمد منور صاحب نے فرمایا کہ عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کے لاہور سے 2جنوری 1972ء لندن روانگی کے دودن بعد اس وقت کی پاکستان عوامی لیگ پنجاب کے صدر ملک غلام جیلانی میرے پاس تشریف لائے ،ملک غلام جیلانی بہت غم زدہ لگ رہے تھے ،ملک غلام جیلانی نے مجھ سے کہا کہ مرزا صاحب آپ کاپاکستان تو دو دن پہلے ٹوٹ گیا ہے اور اب شاید ہی نہیں بلکہ یقیناً ہم دوبارہ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کے ساتھ متحد نہ کرسکیں گے،مرزا صاحب نے فرمایا کہ میں تو پہلے ہی بہت ستم رسیدہ تھا میرے وکھ میں جیسے کسی نے اضافہ کردیا ہو ،میں ملک غلام جیلانی سے ان کی بات کی تفصیل جلد حاصل کرنا چاہتا تھا، انہوں نے ساری کہانی بیان کرنی شروع کردی ،ملک غلام جیلانی نے بتایا کہ عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کو 2 جنوری 1972ء کی صبح ہونے سے پہلے سنٹرل جیل میانوالی سے ایک خصوصی طیارہ کے ذریعے لاہور لایا گیا ،مجھے انتہائی راز دارانہ طور پر گورنر ہائوس بلایا گیا اس وقت ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کا سول مارشل لاء نافذ تھا ،گورنر ہائوس پہنچنے کے بعد مجھے بتایا گیا کہ شیخ مجیب الرحمن کو عالمی طاقتوں کے دبائو کی وجہ سے رہا کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے فوجی عدالت سے شیخ مجیب الرحمن کو ’’سنائی ‘‘گئی سزائے موت بھی معاف کردی ہے ،آپ چونکہ شیخ مجیب الرحمن کے ذاتی اور پرانے سیاسی دوستوں میں سے ہیں اور انکی سیاسی جماعت عوامی لیگ کے صوبائی صدر بھی ہیں اس لئے آپ کو یہاں انکے استقبال کیلئے بلایا ہے آپ سے انکی ملاقات بھی کروائی جائیگی اور جب تک وہ لاہور سے روانہ نہیں ہوجاتے آپ انکے ساتھ ہی رہیں گے ملک غلام جیلانی نے بتایا کہ میں سیکورٹی کے اعلیٰ حکام کے ساتھ لاہور ائیر پورٹ پر گیا ،جہاں شیخ مجیب الرحمن نے جب مجھے دیکھا تو مجھے یوں لگا کہ جیسے ان کے جسم میں جان آگئی ہو۔کیونکہ میانوالی سنٹرل جیل سے جب شیخ مجیب الرحمن کو لاہور لایا گیا تو اس بارے میں شیخ مجیب الرحمن کو کچھ نہیں بتایا گیا تھا کہ انہیں کہاں منتقل کیا جارہا ہے ،لاہور میں انتہائی سخت حفاظتی انتظامات میں بہت ہی خفیہ طریقہ سے انہیں گورنر ہائوس لایا گیا ،جہاں میں نے ہی شیخ مجیب الرحمن کو آگاہ کیا کہ انہیں رہا کیا جارہا ہے اور اعلیٰ حکام نے آپ سے پوچھا ہے کہ آپ کہاں جانا چاہتے ہیں جس پر شیخ مجیب الرحمن نے مجھ سے کہا کہ میں کہیں بھی نہیں جاناچاہتا ،میں تو اپنے وطن پاکستان میں ہوں اور یہیں رہنا چاہتا ہوں متعلقہ حکام سے رابطہ کریں اور انہیں بتائیں کہ ابھی وقت ہے کہ ہم پاکستان کو مکمل ٹوٹنے سے بچالیں اور کم ازکم شرائط کے تحت ہم ایک رہ سکتے ہیں۔ ایک مرکزی حکومت اندرونی صوبائی خود مختاری کے ساتھ۔ پاکستان اب بھی بچ سکتا ہے اگر میرا جہاز پاکستان سے لے کر مجھے اُڑ گیا تو پھر ہم دوبارہ کبھی بھی متحد نہیں ہوسکیں گے ۔ (جاری) 

ای پیپر دی نیشن