لندن( تجزیہ/ خالد ایچ لودھی) امریکہ نے افغانستان پر فوجی مداخلت کرکے اس خطے میں امریکی تسلط اور سی آئی اے کا نیٹ ورک قائم کرکے اسامہ بن لادن کی تلاش میں طویل عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دائرہ پاکستان تک پھیلا دیا۔ اسامہ بن لادن کا خاتمہ ہوچکا لیکن اب ایمن الظواہری اور ملا عمرکی پاکستان میں موجودگی کا جواز پیدا کرکے امریکی گیم کا میدان اب پاکستان بن چکا ہے جسکا آغاز80 کروڑ ڈالر کی امریکی فوجی امداد کی فوری بندش ہے یہ حقیقت ہے کہ امریکی امداد کی شکل میں آنے والا ایک ایک ڈالر پاکستان کیلئے تباہی و بربادی کا سامان پیدا کر رہا ہے افواج پاکستان کے کور کمانڈر ز کانفرنس کے بعد جو پریس ریلیز جاری ہوئی ہے اس پر اب پوری قوم کو بڑی سنجیدگی سے غور کرناچاہیے اور ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی فوجی ضروریات کے علاوہ عوامی ترقیاتی منصوبوں پر ملک میں موجود ملکی سرمایہ استعمال میں لاناچاہیے۔ جس قدر جلد ممکن ہو امریکی امداد سے چھٹکارا حاصل کیاجائے امریکی ڈالروں کے عوض پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کا سودا نہ کیاجائے افواج پاکستان کے خلاف امریکی پروپیگنڈے کی بھرپور انداز میں نہ صرف مذمت کی جائے بلکہ اب خارجہ پالیسی ازسر نو تشکیل دیکر امریکہ کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کئے جائیں اور خطے میں بھارت کے بڑھتے ہوئے کردار کا بھی نوٹس لیا جاناچاہیے۔قوم کو اب یہ فیصلہ کرلیناچاہیے کہ کیا امریکی ڈالروں کے عوض پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکہ کے حوالے کردیناچاہیے؟ امریکی سی آئی اے پاکستان کے ایٹم بم کو خدانخواستہ ناکارہ بنانے میں کامیاب ہوگئی تو پھر پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے بھارتی خفیہ ایجنسی را اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد دونوں ملکر امریکی سی آئی اے کی بھرپور معاونت کر رہی ہیں جس کے تحت پاکستان کے ایٹمی اثاثے ٹارگٹ پر ہیں۔ بیرون ملک بسنے والے لاکھوں پاکستانی جو زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں اگر اسے درست سمت میں استعمال میں لایاجائے تو امریکی امداد کی ضروری ہی نہیں رہے گی۔ ہر سطح پر کرپشن کا خاتمہ ہوا اور بیرون ملک اثاثے بنانے اور ملکی سرمایہ بیرونی ممالک میں مختلف کاروباری منصوبوں میں لگانے کی بجائے پاکستان پر بھی سرمایہ کاری کی جائے۔
ایٹمی اثاثے