حکومت کی جانب سے قومی سطح پر متفقہ لاحےہ عمل طے کرنے کےلئے آل پاٹےز کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کےا گےا ہے۔ اگرچہ تمام پارٹےوں کی طرف سے اس مشاورتی اجلاس مےں شرکت کی ےقےن دہانی کرادی گئی ہے اور عمران خان نے بھی لندن روانگی موثر کر دی ہے اس کے باوجود اس کانفرنس کے حوالے سے خدشات کا اظہار کےا جا رہا ہے۔ اگرہم موجودہ حکومت کے ہر قول و فعل کو گزشتہ حکومتوں کے طرزِ عمل سے جوڑتے رہنے کی روش پر چلتے رہےں گے تو پھر ہمارے ہاتھ سوائے خدشات کے اور کچھ نہےں آئے گا۔ بہتری کی اُمےد رکھنے مےں ہی ہم سب کی بھلائی ہے۔ تحرےک انصاف کا پرُ زور مطالبہ رہا ہے کہ اس کانفرنس مےں آرمی چےف کا شرکت کرنا بہت ضروری ہے اس لےے کہ آرمی کی شمولےت کے بغےر کوئی بھی قومی پالےسی فےصلہ کن نتائج مرتب کرنے مےں کامےابی سے ہمکنار نہےں ہو سکتی۔ صورتِ حال کی سنگےنی کا اندازہ اس بات سے لگاےا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کا عفرےت پشاور، کوئٹہ اورکراچی سے ہوتا ہوا اب لاہور تک آنے کی مذموم کوشش کر رہا ہے۔ انارکلی مےں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائی اس کی تازہ ترےن مثال ہے۔ وزےراعظم کی جانب سے اس کانفرنس کے اےجنڈے کو واضح کےا جانا چاہےے اور عوام کو ےہ تاثر نہےں ملنا چاہےے کہ ان سے کچھ خفےہ رکھا جارہا ہے۔ وزےراعظم نے اس مشاورت کا اعلان انتخابی نتائج کے فوراََ بعد کےا تھا لےکن درمےان مےں بجٹ اور پھر دورہ چےن آگےا اب ماہ مبارک مےں مبارک فےصلوں کی اُمےد رکھی جانی چاہےے۔ اور ےہ اُمےد کی جانی چاہےے کہ اس کانفرنس کے اےجنڈے مےں دہشت گردی کے مسئلے کو ہی سرفہرست رکھا جائے گا کےونکہ جس طرح عوام غےراعلانےہ لوڈشےڈنگ کے غذاب مےں مبتلا رہے ہےں اسی طرح وطنِ عزےز غےراعلانےہ جنگ کا بھی شکار ہے۔ ہم اےک طوےل عرصے سے حالتِ جنگ مےںہےں۔ ہمارے شہر ، ہماری عبادت گاہےں، فوجی ہےڈکوارٹر، بحری اڈے تک دہشت گردی سے محفوظ نہےں ہےں اس کا بنےادی اسباب مےں سے اےک ےہ بھی ہے کہ ہمارے ادارے اور قائدےن ابھی تک عوام کو ےہ نہےں بتاسکے کہ ہمارا دشمن کون ہے۔ جنگ لڑنے کےلئے بہادری اور ہتھےاروں کے علاوہ ےہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ آپ پر واضح ہو کہ آپ کا دشمن کون ہے؟ کےونکہ ان دےکھے، چھپے ہوئے اور ناقابلِ شناخت دشمن کے خلاف لڑنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ مشاورتی کانفرنس کی کامےابی کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ اس مےں شرکت کرنے والے قائدےن اپنے عوام کو واضح طور پر بتائےں کہ بے گناہ اور معصوم لوگوں پر حملہ کرنے والا دشمن کون ہے؟ اگر وہ ہماری طرح مسلمان ہے تو پھر وہ ہمےں مارنا کےوں چاہتا ہے؟ اس مواقع پر ہمارے اکثر سےاسی لےڈروں کی طرف سے ےہ بےان جاری کےا جاتا ہے کہ معصوم جانوں کا قاتل مسلمان نہےں ہوسکتا۔ اس کے ساتھ ہی عوام کو ےہ بتاےا جانا بھی ضروری ہے کہ ان قاتلوں کےلئے ہمارے مذہبی لےڈر نرم گوشہ کےوں رکھتے ہےں؟ ہمارے قومی اداروں کو اےک دوسرے پر الزامات لگانے کی بجائے دشمن کی شناخت کو واضح کر نے کی طرف بھی توجہ دےنا ہوگی۔ اگر ہم اےک دوسرے کو قصوروار ٹھہراتے رہےں گے تو اس سے دشمن طاقت پکڑتا رہے گا۔ اداروں کے درمےان ہم آہنگی کے فقدان سے بھی دشمن کو فائدہ پہنچتا ہے وہ اس طرح کہ پولےس کا ہمےشہ ےہ موقف رہا ہے کہ ہمارا کام دہشت گردوں کو پکڑ کر عدالتوں مےں پےش کرنا ہوتا ہے جبکہ عدالت ان کو سزا دےنے کے بجائے بری کر دےتی ہے۔ عدالتوں کا کہنا ہے کہ پولےس جو کےس بناکر لاتی ہے اس مےں کوئی جان ہی نہےں ہوتی۔ وہ دانستہ طور پر مضبوط کےس بنانے سے گرےز کرتی ہے تاکہ مجرم باآسانی عدالت سے چھوٹ جائےں۔ سوال ےہ ہے کہ آخر ہم کب تک اس بلےم گےم کو جاری رکھنے کے متحمل ہو سکتے ہےں۔ ہمےں اس سے نکل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ کےونکہ دہشت گردی کے واقعات مےں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے لےکن ہم ابھی تک ان کے خلاف کوئی موثر کاروائی کرنے کا منصوبہ بھی نہےں بنا سکے۔ کےونکہ ہم ابھی تک دہشت گردوں کو پہچاننے مےں ناکام ہےں۔ اس کانفرنس کے توسط سے ہمےں اپنے دشمن کی پہچان کرنی ہے اور پھر اس پر اتفاق رائے پےدا کرنا ہوگا۔ دہشت گردی کا راستہ روکنا آسان کام نہےں ہے لےکن اس کام کو ناممکن سمجھ لےنا بھی درست نہےں ہوگا۔ ےہاں پر ہمےں دہشت گردی مےں اضافے کے رجحان کو اس زاوےہ سے بھی دےکھنا ہوگا کہ تےزی سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت بھی اس مےں اضافے کا بہت بڑا سبب رہے ہےں۔ بے روزگاری کا خاتمہ اور غربت پر کنٹرول کرکے بھی دہشت گردی پہ قابو پاےاجاسکتا ہے۔ ماضی سے لے کر حال تک اگر ہم ملک مےں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی تحقےقات کروانے مےں سنجےدگی کا مظاہرہ کےا ہوتا تو اس کےلئے باقاعدہ طورپر کوئی نےاءمحکمہ بنادےا گےا ہوتا جس کے ذمے دہشت گردوں کے واقعات کی تحقےقات کرنا ہوتا۔ ہمارے ہاں دہشت گردی کے بڑے واقعات ہوتے رہے ہےں ۔ اگر ہم نے ان واقعات کی مکمل تحقےقات کروا لی ہوتیںتو اس کی روشنی مےں آئندہ کی حکمتِ علمی طے کرکے مستقبل مےں ہونے والی دہشت گردی کے حادثات سے بچنے کی صورت نکالی جا سکتی تھی۔ ےوں لگتا ہے کہ پوری دنےا مےں پاکستان وہ واحد جگہ ہے جو دہشت گردوں کےلئے سب سے آسان حدف ہے اس لےے وہ جب چاہےں اور جہاں چاہےں کاروائی کر سکتے ہےں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمےں دہشت گردی کا شکار ہونے والے دوسرے ممالک کے طرزِ فکر کو مدنظر رکھتے ہوئے اور بہت سارے اسباب کو بھی تلاش کرنا ہوگا جن کے باعث ہمارے ملک مےں دہشت گردوں نے اپنی جڑےں مضبوط کرلی ہےں۔ قومی کانفرنس مےں شرکت کرنے والے تمام قائدےن کو اےک خود مختار سکےو رٹی ادارہ بنانے پر بھی غور کرنا چاہےے جس مےں تمام اےجنسےوں کے باصلاحےت ماہرےن کو اکٹھا کےا جائے اور اس مےں تمام سپےشل برانچوں کے تجربہ کار فےلڈ آپرےٹر بھی شامل کےے جائےں اس کے علاوہ سراغ رسانی کے ماہر بھی جمع کےے جائےں تاکہ وہ ممکنہ دہشت گردی کا پتہ لگا کر کوئی واردات ہونے سے پہلے ہی اسے روکنے کےلئے موثر اقدامات کےے جا سکےں۔ ےہی اےک طرےقہ ہے جس سے دنےا پہ ثابت کےا جا سکتا ہے کہ ہمارے ادارے بھی عوام کو امن و تحفظ مہےا کرنے کی پوری صلاحےت رکھتے رہےں۔ وزےراعظم نوازشرےف نے آئی اےس آئی کے ہےڈکوارٹر کا دورہ کےا ہے ان کے اس اقدام کو بہت اہم قرار دےا جا رہا ہے۔ ہےڈکوارٹر مےں وزےراعظم کو اندرونی اور بےرونی خطرات سے متعلق برےف کےا گےا۔ ن لےگ کے نقادوں کی طرف سے وزےراعظےم کے اس دورے کو سراہا جا رہا ہے۔ جب مخالف بھی آپ کے عمل کی تعرےف کرنے لگے تو سمجھنا چاہےے کہ کامےابی کی منزل بہت قرےب ہے۔