نظام جمہوریت اور ہماری ذمہ داریاں

نظام جمہوریت کی اولین ذمہ داری بنیادی حقوق کی فراہمی اور ان کا تحفظ ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری جمہوریت مشکل حالات میں بنیادی حقوق کے دفاع میں کئی بار ناکام رہی ہے ۔پیپلز پارٹی نے اپنے حالیہ دور حکومت میں اپوزیشن کے احترام ، عوامی مینڈیٹ کی توقیر او ہر قسم کی تنقید کی برداشت کی بنیاد پر بنیادی حقوق کی ہر ممکنہ حفاظت کی روایت ڈالی ہے ۔
 پی پی پی کے پانچ سالہ دور میں کوئی شخص سیاسی انتقام کی بناءپر ایک دن بھی پابند سلاسل نہیں رہا۔ اس طرح ہم نے جمہوری اخلاقیات کی نئی طرہ ڈالی ہے تاکہ جمہوریت کی خوبی اور خوشنمائی آئین اور منشور کے صفحات سے نکل کر ہماری معاشرتی زندگی کا حصہ بن سکے۔
ایک جمہوری حکومت کا دوسری منتخب حکومت کو نہایت پر امن انتقال اقتدار ایک اور ایسا کارنامہ ہے کہ جو جمہورت کے تابناک سفر کی گواہی دیتا ہے۔ اب یہ موجودہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح جمہوری سفر کو جاری رکھتے ہوئے یہ امانت اگلے پانچ سالہ دور تک پہنچاتی ہے۔ اصول پسندی اور سچائی کے ذریعے جمہوری کلچر کو مقبول او رمضبوط بنایا جاسکتا ہے اور ہماری جمہوریت اب بہتر اقدار کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اگر ہم نے حال او رمستقبل میں ماضی کی طرز کی اسٹیبلشمنٹ برانڈ سیاسی چھیڑ چھاڑ سے گریز کیا تو پھر یقیناََ ہم متحد اور خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ موجودہ دور سیاسی بالغ نظری کا دور ہے جس میں بے مغز سیاست ،عجلت پسندی ، جابرانہ اقدامات ،زبان بندی کے حربوں ، طاقت کی شیخی اور سیاسی حراسیت کےلئے کوئی جگہ نہیں۔
آج ہم آزادی کی ساتویں دہائی سے گزر رہے ہیں ۔ لیکن یہ پہلی بار ہے کہ ہمار ا ملک فوجی حکمرانی اور کنٹرولڈ جمہوری حکومتوں کے دور سے نکل کر آزاد جمہوری دور میں داخل ہوا ہے۔ اس لےے آزاد جمہوری دور کے تسلسل کو جاری رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا موجودہ حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے ۔ عوام تک جمہوریت کے ثمرات پہنچانا بھی نہایت ضروری ہے اور یہ فریضہ مسلسل کام اور عمل تکمیل ہی سے ادا کیا جا سکتاہے ۔
ہمارے دور حکومت کا ایک اہم نقط علاقائی تعاون اور بہتر ہمسائیگی ہے ۔ یورپ کے ممالک جو کبھی ایک دوسرے کی جان کے دشمن تھے، آج اتحاد و یگانکت کی وجہ سے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی امن او رترقی کا گہوارہ ہےں۔
 پیپلز پارٹی نے اپنے حالیہ دور حکومت میں علاقائی تعاون اور رواداری کی بنیاد رکھی ہے ۔چائینہ کے ساتھ گوادر پورٹ اور ایران سے گیس پائپ لائن کے معاہدے اور ابھارت سے تجارتی اشتراک ، مستقبل میں عوام کی معاشی خوشحالی اور علاقائی بھائی چارے کی اہم ضمانت بن کر سامنے آئیں گے۔ جس طرح جناب ذوالفقار علی بھٹو نے آزاد خارجہ پالیسی کے ذریعے پاک چین دوستی کی بنیاد رکھی اسی طرح اُن کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے محکومانہ معاشی پالیسوں کی جگہ آزادانہ معاشی اصولوں کو اپناتے ہوئے بھارت ، چین افغانستان ،ترکی ، ایران، اور مشرق وسطی کے ممالک کے ساتھ دوستی اور دوررس معاشی معاہدات کئے۔سیاسی حکومتوں کو بعض اوقات سیاسی مفاد کی قیمت پر بھی کچھ فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ سیاست کا مقصد چونکہ عوام کی بہتری اور ترقی ہوتا ہے اس لےے ملک و قوم کے مفاد کی سیاست ہی بہتر ین سیاست ہے، اس کی قیمت خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو۔
ماضی میں بہت سے ایسے واقعات وقوع پذیر ہوئے کہ جن کے حقائق کا تاحال حتمی علم نہیں ہوسکا۔ لیکن ان کی حقیقت کی چھان بین نہایت ضروری ہے۔ جن واقعات کے حقائق کا ہی پتہ نہ ہو ان کے تدارک کےلئے نہ تو کوئی پیش بندی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سیکھنے کا عمل جاری رہ سکتا ہے ۔اس ضمن میں میری تجویز ہے کہ حکومت Truth Reconciliation Commissionتشکیل دے جو سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکڑز کا احاطہ کرتے ہوئے ہماری قومی زندگی پر منفی طور پر اثرانداز ہونے والے واقعات و اقدامات کی چھان پھٹک بھی کرے اور ذمہ داران کا تعین بھی تاکہ ان غلط اقدامات کا حتمی تعین ہو سکے جو ملک و قوم کے اجتماعی مفاد کے برعکس شخصی یا گروہی مفاد کےلئے کےے گئے اور جن کے نتائج قوم آج تک بھگت رہی ہے۔
اسی طرح دہشت گردی کا مسئلہ بھی نہایت گھمبیر اور فوری توجہ طلب ہے ۔
اپنے سیاسی سفر اور تجربے کی بنیاد پر میری یہ رائے ہے کہ موجودہ سیاسی حالات میں ہمیں گھائل کر دینے والے سیاسی اختلافات سے کنارہ کش ہوکر سیاست کے تابناک سفر کےلئے کمر بستہ ہو جانا چاہےے ۔ماضی کی طرح اب سیاسی اختلافات کے ان گول پتھروں کو تراشنے کی ضرورت نہیں کہ جو کبھی بھی ہماری سیاسی عمارت میں فٹ نہیں بیٹھ سکے مگر ہمیشہ تیسری قوت کے ذریعے ہمارے ہی سر پھوڑنے کے کام آئے ۔
 اُمید ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی دانشمند انہ سیاست کی بدولت ہمارا کل آج سے بہتر ہوگا۔ اور اس اُمید کی وجہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں تجربہ کار او ر مخلص لوگ موجود ہیں جنہوں نے ماضی کے تلخ و شیریں تجربات سے بہت کچھ سیکھا او رسمجھا اور وہ جانتے ہیں کہ معاملات کی تکمیل ،تلخ نوائی سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن