ہم تو بے گھری کا شکار ہیں۔ گھر میں ہوتے ہوئے بھی ہم گھر میں نہیں ہوتے۔ ہم بہت کم کتابیں پڑھتے ہیں مگر یہ بات میں نہیں مانتا کہ ہم نے کتاب کے ساتھ رشتہ توڑ لیا ہے۔ بہت کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ اگر بکتی نہ ہوتیں تو سارے پبلشنگ ہاﺅس بند ہو جاتے اور کتابیں چھاپنے والے کوئی اور کام کرتے۔ جس طرح اچھے لوگ کم ہیں سوچتے لوگ کم ہیں۔ سوچنے والے کم ہیں تو پھر پڑھنے والے بھی کم ہیں مگر ہیں تو سہی۔ اب تو کالموں پر مشتمل کتابیں بھی شائع ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ کئی لوگ اپنے کالموں کی کتابیں چھاپ چھاپ کے مزاح نگار بن گئے ہیں۔ شاعر بن گئے کہ عالمی مشاعرے پڑھیں اور نوٹ کمائیں۔ کالم نگاری بھی ایک کاروباری مصروفیت کی طرح شروع کی کتابیں چھاپ لیں اور اب امیر کبیر ہو گئے ہیں۔ اس طرح لوگ مشیر اور سفیر بھی بن گئے ہیں۔ میں بالعموم سیاسی کالم لکھتا ہوں مگر کالم نگاری سالم نگاری ہیں تو آج چند کتابوں پر کالم دیکھئے۔
............٭٭٭٭............
طارق بلوچ صحرائی نے اپنے افسانوں کی کتاب شائع کی ہے۔ ”سوال کی موت“ وہ کیا سوال ہو گا جو مر گیا ہے۔ طارق جواب ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ اس کے افسانوں پر کبھی کبھی کالموں کا گماں گزرتا ہے۔ آج کل کالموں میں جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ صحافی کا کام سوال کرنا ہے۔ میں نے اس کالم میں ممتاز صحافی نوید چودھری کے کالموں کی کتاب بھی شامل کی ہے۔ اس میں نوید نے کئی سوال اٹھائے ہیں اور جواب پڑھنے والوں کے لئے چھوڑ دئیے ہیں۔ سوال سے پہلے جواب نہیں ملتے۔ مل بھی جائیں تو سوال جتنے باکمال نہیں ہوتے۔ طارق بابا جی عرفان الحق سے بہت محبت کرتا ہے اور بانو آپا سے بھی۔ انہیں بانو قدسیہ کہنے کی ہمت ہی نہیں پڑتی۔ طارق نے بابا جی اور بانو آپا سے پوچھا ہے کہ کیا سوال کی موت واقع ہو گئی ہے۔ عجیب جملہ ممتاز مفتی نے بانو آپا کے لئے لکھا ہے ”وہ اندر سے قدیم ہے باہر سے جدید ہے“ طارق بلوچ کے افسانے اصل میں مکالمے ہیں جبکہ اسے ابھی معلوم نہیں ہے کہ دوسرا کون ہے جس سے وہ ہمکلام ہے۔ کبھی کبھی خود کلامی اور ہمکلامی میں فرق مٹ جاتا ہے۔ وہ بہت بڑا افسانہ نگار بنے گا اسے یقیناً ایک دن پتہ چل جائے گا کہ اس کے اندر دوسرا کون ہے۔ بابا عرفان سے اس کی عقیدت کے کئی رنگ ہیں جو اس کے جملوں میں رنگا رنگی پیدا کرتے ہیں۔ ایک بار بابا جی اسے کہنے لگے تم پہلے بلوچ ہو جسے بندہ صحرائی بننے کا شوق ہے۔ طارق بلوچ نے ابھی مرد کہستانی کو اپنے اندر چھپا کے رکھا ہوا ہے۔ اصل میں سب کچھ اندر ہی ہے۔ اس نے اندر کی کہانیاں لکھی ہیں جو باہر ہے وہ بھی کسی کا اندر ہے۔
میں نے طارق کے لئے کچھ جملے لکھے تھے جو بہت عزیز دوست بیش بہا پبلشر افضال صاحب نے ضائع کر دئیے۔ طارق اپنے احساس کو راز بنا کے اپنے افسانے میں اس طرح رکھ دیتا ہے کہ تحریر اور تقدیر میں فرق مٹ جاتا ہے۔
٭٭٭٭
میرے دل کے قریب بہت عزیز دوست سرفراز علی حسین کے بیٹے حسن سرفراز کی نظمیں پڑھ کر میں دم بخود رہ گیا اور مجھے اپنی ماں یاد آئی جو زندہ ہے اور میرے پاس رہتی ہے۔ اپنی اچھی ماں کے مرنے کے بعد حسن سرفراز شاعر ہو گیا ہے۔ لگتا ہے کہ وہ یہ نظمیں نہ لکھتا تو شاید مر جاتا۔ اللہ اسے بہت زندگی عطا کرے اور زندگی کچھ اور زندگی بنا دینے کی طاقت دے ایسا ضرور ہو گا کہ وہ اتنی حیرت انگیز نظمیں لکھنے پر قادر ہوا۔ یہ نظمیں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کے بھولپن کا بانکپن ان کو بھی حیران کر دیتا ہے جو صرف پریشان ہونا جانتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بچے جنت کے باشندے ہوتے ہیں۔ اپنی ماں کو یاد کرو اس کے قدم چومو اور پھر یہ نظمیں پڑھو تو شاید ان کے معانی کسی آسمانی مسکراہٹ کی طرح آپ کے دل پر اتریں۔ حسن سرفراز نے اپنی ننھی منھی نظموں کا نام ”انجیل عجم“ رکھا ہے۔ کاش وہ اس کتاب کا نام ”ماں کی دعا“ رکھتا۔ اس کا والد سرفراز علی حسین بھی ایک سرمست شاعر ہے۔ اپنے بیٹے کی نظمیں پڑھ کر سوچنا ہوگا کہ اپنے بچوں کی ماں کے اندر مامتا شوہر نامدار کو نظر کیوں نہیں آتی۔
ٹی وی ہوسٹ نے
خدا حافظ کہتے ہوئے
مسکرا کر کہا
اپنا اور اپنی ماں کا خیال رکھنا
میں نے پھول اور کلیاں
ماں کی قبر پر ڈال کر کہا
اللہ میری ماں کا خیال رکھنا
٭٭٭٭
معروف ادیب اور ناول نگار سلمیٰ یاسمین نبی نے مجھے اپنا ناول ”سانجھ بھئی چودیس“ بھجوایا ہے۔ اس مصروف زندگی میں اتنا ضخیم ناول سلمیٰ بی بی نے کیسے لکھ لیا۔ انہیں معروف ادیبہ کہنے کے علاوہ مصروف ادیبہ لکھنا چاہئے۔ اتنا لمبا چوڑا ناول پڑھنا بھی ایک ادبی سرگرمی ہے بلکہ شرگرمی ہے۔ اس طرح لوگوں کو پڑھنے کی عادت پڑ جائے گی یا وہ کالم پڑھنا بھی چھوڑ دیں گے۔ آج کل ادبی ماحول میں ناول لکھنا لوگ چھوڑ بیٹھے ہیں۔ یہ سیدھی سیدھی بہت بڑی ادبی بہادری ہے۔ 728 صفحات پر مشتمل اس ناول کا انتساب بہت دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ ”عوام کے نام۔ مرد نے کہا کہ وہ ایک پہیلی ہے مگر اس نے بوجھنے کی کوشش نہیں کی“ سلمیٰ بی بی سے عرض ہے کہ پہیلی بوجھ لی جائے تو وہ پہیلی نہیں رہتی۔
گوری سوئے پلنگ پر مُکھ پر ڈالے کین
چلی خسرو گھر آپنے سانجھ بھی پردیس
٭٭٭٭
کالموں پر مشتمل کتاب کا نام نوید چودھری نے رکھا ہے کہ اس میں کئی معانی چھپے ہوئے ہیں۔ ”بہت کام رفو کا نکلا“ اس کتاب کا مسودہ نوید نے میری طرف بھجوایا تھا۔ یہ ایک اعزاز کی بات ہے کہ انہوں نے میری رائے اپنی کتاب میں شامل کی۔ نوید نے صحافت کے میدان میں بہت کام کیا ہے اور ابھی بہت کام انہوں نے کرنا ہے۔ اس کتاب کی تقریب میں وزیر اطلاعات پرویز رشید، کالم نگار نجم ولی خان کی ایک فون کال پر تشریف لے آئے اور بہت اچھی باتیں کیں۔ یہ ایک بھرپور تقریب تھی۔ مجیب الرحمن شامی نے یہاں نجی ٹی وی چینلز کے اینکر پرسنز کو پاکستانی بننے کی تلقین کی۔ میرے خیال میں کالم نگار صحافی نہیں ہوتا، صحافی کالم نگار ہو سکتا ہے۔ اس کی ایک اعلیٰ مثال عبدالقادر حسن کی ہے۔