جاوید ہاشمی اور جاگیرداری کا مسئلہ

آج کل غلام مصطفیٰ کھر اپنی سفید مونچھوں میں دانت جھڑا شیر دکھائی دے رہے ہیں ورنہ اک زمانے میں ان کے بڑے رولے غولے تھے۔ ان دنوں وہ گورنر پنجاب تھے اور راہگیر رات گئے گورنر ہاﺅس کے پاس سے گزرتے ہوئے گھنگھروﺅں اور طبلہ کی آوازیں سننے کی لاشعوری کوشش کرتے رہتے۔ پولیس اپنے روزنامچہ کے مطابق چوبیس گھنٹے آن ڈیوٹی رہتی ہے یہ اعزاز صرف جناب کھر کو حاصل ہے کہ ان کی لاٹ صاحبی کے دنوں میں بیچاری پولیس کو ہڑتال پر جانا پڑا۔ پھر پسپائی اور شکست بھی ان کے حصے میں آئی۔ میرا مطلب ہے کہ پولیس کے حصے میں آئی ورنہ غلام مصطفیٰ کھر تو ان دنوں فاتح اعظم دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے ہر روز روز عید اور ہر شب شب برات والے زمانے میں سمن آباد لاہورسے دو بہنوں کے اغواءکا واقعہ رونما ہوا۔ کھوجیوں نے کھرا گورنر ہاﺅس کے مین گیٹ پر پہنچا دیا۔ خلق خدا نے گورنر ہاﺅس کے مکین غلام مصطفیٰ کھر کو مشکوک نظروں سے تکنا شروع کر دیا۔ اب نہتے طالب علم رہنما جاوید ہاشمی گورنر ہاﺅس پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ عزم‘ ارادے اور جرات سے بڑا ہتھیار ابھی سائنس ایجاد نہیں کر سکی۔ پھر ان کی دلیری اور دلبری کی یہی داستان ‘ تحریک بنگلہ دیش نامنظور‘ کو جا چھوتی ہے۔ روزنامہ نوائے وقت کا اس زمانے کا کردار پاکستان کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے بدھ وار کی رات میں ڈیفنس لاہور کے شیزان‘ ریستوران میں جاوید ہاشمی کی کمزور صحت دیکھ کر سوچنے لگا کہ شاید جرات اور دلیری کا جسمانی ساخت سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا۔ یہ کوئی اور پراسرار شے ہے جو بندے کے خاص باطن سے باہر آتی ہے۔
خود اپنے ہی اندر سے ابھرتا ہے وہ موسم
جو رنگ بچھا دیتا ہے تتلی کے پروں پر
مجھے جاوید ہاشمی بتانے لگے کہ میں ان دنوں فالج کے حملے کا شکار ہوا تھا۔ پھر اللہ کے فضل و کرم سے مرض پر قابو لیا گیا۔ میں واپس ملتان آ گیا ملتان کے صحافی میری عیادت کو تشریف لائے وہ بتانے لگے کہ زندگی کے آخری دنوں میں حضرت عطاءاللہ شاہ بخاری بھی فالج سے لاچار تھے۔ اس مرض میں سب سے زیادہ ان کی زبان متاثر ہوئی۔ انہیں بولنے میں اور سننے والوں کواسے سمجھنے میں دقت محسوس ہوئی تھی شاہ جی کی آواز میں وہ گھن گرج نہ رہی جس کی گونج انگریز کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دیا کرتی تھی۔ شاہ جی اپنے مخصوص رنگ میں فرمانے لگے۔ میں اللہ کے حضور اپنی زبان کی فریاد لے کر گیا‘ انہوں نے مجھے‘ شٹ اپ کہتے ہوئے کہا کہ تم اپنے حصے سے زیادہ بول چکے ہو‘ جاﺅ اور دل و دماغ سے بس اللہ اللہ کیا کرو‘ جاوید ہاشمی کہنے لگے کہ میں نے انہیں بتایا کہ میں بھی اپنی زبان کے بارے میں عرضی لے کر عرش والے کے ہاں پہنچا لیکن انہوں نے مجھے تو بک اپ کیا اور کہا کہ جاﺅ تم نے ابھی خطابت کے کئی معرکے سر کرنے ہیں۔ میں اس اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے اس عزم عالیشان کو تکتے ہوئے ایک جہاں حیرت میں ڈوب گیا۔ سیالکوٹ سے عمر ڈار جاوید ہاشمی کی کرسی کے پیچھے دیر سے A.D.C کی طرح کھڑا تھا۔ جاوید ہاشمی چھ بیٹیوں کے باپ ہیں اور اولاد نرینہ سے محروم ‘ لیکن آپ اس سید زادے کو ابتر ہر گز نہیں کہہ سکتے عمر ڈار جیسے سینکڑوں ہزاروں نوجوان ان کے بیٹے ہیں۔ وہ ان پر فخر بھی کر سکتے ہیں۔ اچھے دوست‘ مداح اور نیاز مند اللہ کی عطا ہوتے ہیں۔ یہ انعام ربی ہیں‘ تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاﺅ گے۔ پھر وہاں سوال چھڑ گیا کہ تحریک انصاف گوجرانوالہ نے پنجاب بھر میں سب سے زیادہ ناقص اور کمزور کارکردگی کا مظاہرہ کیوں کیا؟ میں کہا: خاص گوجرانوالہ کو چھوڑیں‘ جہاں بھی ٹکٹ فروخت کئے گئے ایسی ہی خانہ خرابی ہوئی۔ آئندہ الیکشن میں چیئرمین عمران خان خود امیدواروں کے انٹرویو کریں گے اور امید ہے کہ ایسی خرید و فروخت نہیں ہو سکے گی۔ جاوید ہاشمی سیاستدانوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو لکھنے پڑھنے کا بکھیڑا بھی لئے پھرتے ہیں۔ جس معاشرے میں لوگوں کا لکھنے پڑھنے کا شوق بس چیک لکھنے اورچیک پڑھنے تک محدود ہو کر رہ جائے‘ وہاں لکھنے پڑھنے کی عادت کسی خوبی میں شمار نہیں ہوتی لیکن ہمارے جاوید ہاشمی بڑے فخر سے بتا رہے تھے کہ چند دنوں میں ان کی تیسری کتاب شائع ہو رہی ہے وہ کہنے لگے یہ کسی پہلے سیاستدان کی جیل میں لکھی تیسری کتاب ہے۔ اپنی پہلی دو کتابیں بھی انہوں نے اپنے ایام سیری ہی میں لکھی تھیں جاوید ہاشمی اٹھے اور واش روم کی جانب چلے گئے۔ انہیں تھوڑی دیر بعد ملتان کی جانب کوچ کرنا تھا۔ جہاز کی ٹکٹ ملی نہیں‘ وہ بذریعہ سڑک جا رہے تھے۔ میں سوچنے لگا کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی تنزلی کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو کسی حد تک تحریک انصاف پورا کر چکی ہے لیکن جاگیرداری کے مسئلے پر واضح موقف نہ ہونے کے باعث تحریک انصاف کی بے زمین کسانوں‘ مزدوروں اور ترقی پسند حلقوں تک رسائی نہیںہو سکی۔ احسن رشید ‘ اللہ انہیں صحت عطاءفرمائے ‘ نے مجھے بتایا کہ عمران ذاتی ملکیت کے بارے میں واضح رائے نہیں رکھتے۔ وہ ریاست کو کسی فرد کی جائیداد چھیننے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ عمران خان کی ان دنوں مولانا طارق جمیل سے بڑی ملاقاتیں ہیں لیکن مولانا انہیں اسلام کا قانون حجر نہیں بتائیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ زمین کی ملکیت کے تمام حقوق سے ریاست کبھی دستبردار نہیں ہو سکتی۔ ہندوستان میں 1860ءمیں کاشتکاروں کو محض زمین کی کاشتکاری کے حقوق ملے تھے۔ اگر زمین کے مالکوں کے زمین کی ملکیت کے بارے میں لامحدود حقوق مان لئے جائیں تو بے مالکوں کے وطن کی مٹی سے تمام حقوق ختم ہو جاتے ہیں۔ مولانا رفیع الدین ہاشمی ہندوستان کو مفتوحہ زمین قرار دیتے ہیں زرعی اصلاحات کی بات چھڑی تو جاوید ہاشمی کہنے لگے کہ کل میں نے پارٹی میٹنگ میں جاگیرداری کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ تیری آواز مکے اور مدینے۔ کہنے لگے کہ میرا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ میں نے ملتان میں فیوڈل لارڈز کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ میں نے بیک وقت یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی دونوں کو سیاست کے میدان میں شکست دی ہے۔ جاگیرداری ہی ایک مسئلہ ہے جس سے تمام مسائل پیدا ہوتے ہیں‘ سیاسی بھی اور سماجی بھی ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ہندوستان کبھی کا جاگیرداری سے پنڈ چھڑا چکا ہے۔ ادھر ہم ہیں کہ اسے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں باغی جاوید ہاشمی یہ باتیں کرتے ہوئے ملتان جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
پس تحریر۔ میں نے اپنے گذشتہ کالم میں آر پی اوگوجرانوالہ کی شان میں روپوش کا لفظ استعمال کیا تھا۔ جواب میں موصول ہوا ہے کہ میں اردو اخبارات بالکل نہیں پڑھتا‘ کبھی کبھار صرف ”ڈان،، دیکھتا ہوں۔ حضور! وہ سارے لوگ اردو اخبارات ہی پڑھتے ہیں جن پر آپ ان کی بدقسمتی سے آر پی او نازل کئے گئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن