موتیوں پر تحقیق کیلئے بھی کچھ وقت نکالیں!

اُس وقت امریکہ میں صدر فرینکلن ڈی روزیلٹ کی حکومت تھی، جرمنی پر مردِ آہن ایڈولف ہٹلر برسراقتدار تھا ، برطانیہ میں ونسٹن چرچل کی حکمرانی تھی اور باکس آفس پر ” میٹ می ان سینٹ لوئی“ نامی شاہکار فلم کا کھڑکی توڑ راج جاری تھا۔ یہ دراصل دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا، جنگ اپنے پورے عروج پر تھی، اتحادی اور محوری قوتیں ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما تھیں،سینکڑوں شہر کھنڈرات بنائے جاچکے تھے اور کروڑوں افراد پر مشتمل آبادیاں قبرستانوں میں تبدیل کی جاچکی تھیں،نصف دہائی کی اس جنگ سے زندگی جیسے تھم سی گئی تھی، لیکن آئرلینڈ میںٹرینیٹی کالج ڈبلن میںسب کچھ جوں کا توں چل رہا تھا۔ کلاسز میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا تھا، پروفیسر بروقت آکر لیکچر دیتے اور لیبارٹریوں میں تحقیق کا کام اسی مستعدی سے جاری تھا۔ٹرینیٹی کالج میں جنگ کے دوران ہی 1944ءمیں ایک تاریخی تحقیق کا آغاز کیا گیا ۔ یہ تحقیقی تجربہ اپنی نوعیت کا دنیا کا منفرد تجربہ تھا۔ اس تجربے میں تارکول کی لعاب داری (Viscosity) جانچی جانی تھی۔لعاب داری سے مراد کسی معائع کا گاڑھا پن ہوتا ہے اوریہ جاننے کیلئے کہ تارکول مائع ہے یا ٹھوس، اس کا فیصلہ تارکول کی وسکوسٹی نے کرنا تھا، تارکول کی ”وسکوسٹی“ یعنی لعاب داری ایک جانچنا انتہائی صبر آزماکام تھا۔ یہ کوئی ایک دو دن کا تجربہ نہیں تھا، ایک دو مہینے کا بھی نہیں حتیٰ کہ یہ تحقیقی تجربہ ایک دو سال کا بھی نہیں تھا، بلکہ یہ تجربہ تاریخ کا سب سے طویل ترین تحقیقی تجربہ کہلاتا ہے۔ اس تحقیق میں پہلا موڑ 2013ءاُس وقت آیا جب ”کنول کیف“ (Funnel) میں رکھی تارکول کا ایک قطرہ کیف کے باریک دھانے سے نکل کر نچلے مرتبان میں جاگرا۔ ستر سال تک جاری رہنے والی اس تحقیق نے ثابت کیا کہ تارکول ٹھوس نہیں بلکہ انتہائی لعاب دار اور انتہائی سست روی سے حرکت کرنے والا مائع ہے۔
تحقیق میں بلا شبہ یورپ آج دوسرے ممالک سے بہت آگے ہے اور ایسے ایسے معاملات میں تحقیق ہورہی ہے، جس کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ چھوٹے چھوٹے معاملات، خیالات، رجحانات اور میلانات پر تحقیق یورپی جامعات کا خاصہ بن چکا ہے، لیکن اس کے باوجود افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ایک بہت بڑا ایشو جس کی وجہ سے دنیا اس وقت عذاب میں مبتلا ہے، اس پر تحقیق کرنے کی بجائے بغیر کسی ثبوت کے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہذیانی انداز میں پراپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ اسلام دہشت گردی کو فروغ دینے کا باعث ہے۔اسلام کیخلاف پراپیگنڈا میں مصروف عالم مغرب کے ایسے عناصر سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا کائنات پر اتنی تحقیق کرنے والے مغرب نے ذرا یہ تحقیق کرنے کی کوشش کی کہ دنیا بھر کی سلامتی کی ضامن کتابِ مقدس بھلا لوگوں کو دہشت گردی کا درس کیسے دے سکتی ہے؟ معلوم تحقیق کے مطابق قران حکیم کی تین سو نوے آیات میں امن پر زور دیا گیا ہے اور سینتالیس مرتبہ سلامتی کی بات اٹل انداز میں کی گئی ہے، اب بھلا ایسی کتاب کو دہشت گردی کا ماخذ کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے؟ جس قران کی تراسی آیات میں ترانوے مرتبہ محبت، پیار اور انس کا کا زکر آیا ہو بھلا وہ لوگوں سے نفرت کیوں سکھائے گی؟ یہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے کہ قران مجید میں ایک بھی ایسی آیت ایسی نہیں جس میں انسان کو انسان سے نفرت سکھائی گئی ہو یا معاشرے میں منافرت، دہشت گردی یا تخریب کا سبق دیا گیا ہو ، اس کے باوجود اتنی بہتان تراشی! مسلمانوںکی دیگر مقدس کتب کا مطالعہ کریں تو یہ بھی منفی پراپیگنڈا کرنے والوں کا منہ بند کرنے کیلئے بہت ہیں۔ مثال کے طور پر صحیح بخاری کی تریسٹھ احادیث میں امن کا ذکر نواسی مرتبہ،صحیح مسلم کی پانچ ہزار چھ سو پندرہ احادیث میںآٹھ ہزار سات سو پندرہ بار، سنن ابوداو¿د کی دو ہزار تین سو باسٹھ احادیث میںتین ہزار تین سو تہتر بار، جبکہ موطا کی نو سو سات احادیث میں پندرہ سو پینسٹھ بار امن کا زکر کیا گیا ہے۔ چونکہ انسانیت کے ساتھ محبت پیار اور انس بھی ایک عظیم انسانی جذبہ ہے، اس لیے دینِ اسلام میں ایک دوسرے کے ساتھ حسنِ اخلاق، پیار اور محبت کی بھی بہت تاکید کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر بخاری شریف میں ایک سو بیاسی احادیث میں محبت، پیار اور انس کا ذکر دو سو چھیاسی مرتبہ ،صحیح مسلم کی ایک سو اٹھائیس احادیث میں دو سو ایک بار،سنن ابو داو¿د کی بائیس احادیث میں اکتیس مرتبہ جبکہ موطہ میں بائیس احادیث میں محبت، پیار اور انس کا ذکر چھتیس بار کیا گیا ہے، امن سلامتی اور پیار محبت کا ایک حدیث میں ایک سے زیادہ مرتبہ ذکر بھی دراصل ان سنہری باتوں پر زور دینے اور ان کی اہمیت بیان کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے باوجود اسلام کے خلاف اتنا پراپیگنڈا، خدا کی پناہ ہے!
انتہائی افسوس تو یہ ہے کہ آج کے جدید دور میں جب معلومات پر قدغن نہیں لگایا جاسکتا، جب لوگوں کو ”ڈرامے بازیوں“ اور جھوٹی باتوں سے گمراہ کرنا آسان نہیں، آج بھی دین اسلام کے بارے میں غلط طور پر پراپیگنڈا کیا جاتا ہے اورمغرب میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس پراپیگنڈا سے بسا اوقات متاثر بھی نظر آتی ہے۔ کیا یہ کھلی حقیقت نہیں کہ اسلام واحد مذہب ہے، جسے مکمل ضابطہ حیات قرار دیا جاتا ہے۔اسلام جہاں اپنوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھے، لکھنے پڑھنے، کھانے پینے، بولنے چالنے اور ملنے جلنے کی تربیت فراہم کرتا ہے، وہیں اسلام ہمیں دشمنوں کے ساتھ انسانیت کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا موقف پیش کرنے کے آداب بھی سکھاتا ہے۔لیکن اسلام نے کہیں بھی وحشت، دہشت گردی ، ظلم یا جبر کا درس نہیں دیا۔ اسلام دنیا کا پہلا اور واحد مذہب ہے جس نے جنگوں کے وہ آداب آج سے سوا چودہ سو سال پہلے بیان کردیے تھے، جو دنیا کی مہذب اقوام آج مرتب کرتی پھر تی ہیں۔کیا حقیقت یہ نہیں کہ اسلام نے دورانِ جنگ بچوں، بوڑھوں، بیماروں اور خواتین کونقصان پہنچانے کے بجائے انہیں امان دینے پرزور دیا! کیا اسلام ہی وہ دین نہیں جس نے دورانِ جنگ کنووں میں زہر ملانے اور فصلیں اجاڑنے سے سختی سے منع کیا! کیااسلام ہی وہ آفاقی پیغام نہیں جس نے جنگوں میں پکڑے جانے والے قیدیوں کو غلام بنانے کی ریت اور روایت کو ختم کیااور جنگی قیدیوں کی رہائی کے واضح اور روشن اصول متعین کردیے! لیکن اس کے باوجود اسلام کے خلاف منفی پراپیگنڈا کیا جاتا ہے۔
قارئین محترم! حیرت کی بات ہے کہ یورپ میں ایک سائنسی مفروضے پر تحقیق شروع کرنے کیلئے حالت جنگ کی پرواہ بھی نہیں کی گئی، لیکن یہ حقیقت جاننے کیلئے کہ اسلام سلامتی کا دین ہے یا دہشت گردی کو پروان چڑھانے کا پیغام دیتا ہے؟افسوس کا مقام ہے کہ یورپ نے حالت امن میں بھی اس پر تحقیق کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔ حیرت کی بات ہے کہ جس مذہب میں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا گیا ہو، اسے دہشت گردی کا مذہب قرار دیدیا جاتا ہے، عالمِ مغرب نے تارکول کو مائع ثابت کرنے کیلئے تو ستر سالہ تحقیقی تجربے کا ریکارڈ بناڈالا، لیکن اسلام کو سمجھنے کیلئے پانچ منٹ نکالنے کو بھی تیار نہیں۔ اے کاش! کوئلوں پر وقت صرف کرنے والے موتیوں پر تحقیق کیلئے بھی کچھ وقت نکال لیںتو شاید دنیا میں امن قائم ہوجائے!

نازیہ مصطفٰی

ای پیپر دی نیشن