پتہ چلا کہ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل اُلرحمٰن کو "Numerology" یعنی عِلم اُلاعداد سے بہت دلچسپی ہے ۔ عِلم اُلاعداد کا تعلق اعداد کے مفرُوضہ اسرار و رمُوز سے ہے۔ کوئی عدد کسی کے لئے منحوس اور کسی کے لئے مبارک ہوتا ہے ۔
بنگلہ نمبر 22
خبر کے مطابق ”وفاقی وزیر کے برابر مراعات کے حامل کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل اُلرحمٰن ،اسلام آبادمیں وُزرا ءکی کالونی کے بنگلہ نمبر 22 میں رہائش پذیر ہو گئے ہیں“۔ خبر کے مطابق” بنگلہ نمبر 22ایک سال سے خالی پڑا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر زرداری کے دَور میں بھی مولانا فضل اُلرحمٰن چیئرمین کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے اِسی بنگلہ نمبر 22 میں پورے 5سال تک رہے ۔ پنجاب کے دانشور وزیرِاعلیٰ جناب محمد حنِیف رامے (مرحوم)نے مجھے بتایا تھا کہ ”4 کا ہِندسہ کائنات کی تکمیل کا ہِندسہ ہے۔خواہ وہ 22 ،13یا 31کی شکل میں ہو“۔ رامے صاحب نے یہ بھی بتایا تھا کہ ” حضرت موسیٰؑ کے دَور کا فرعون ِ مِصر جب دریائے نِیل میں ڈوبا تھا تو اُس دِن مِصری کیلنڈر کے مطابق 13تاریخ تھی ( یعنی 1+3 = 4 )اُس کے بعد مِصری اور دوسری قوموں نے 13کے اعداد کو منحوس سمجھنا شروع کر دِیا تھا“۔ہمارے یہاں بھی بعض لوگ 13کو منحوس ہی سمجھتے ہیں ۔اِس حساب سے مولانا فضل اُلرحمٰن کے لئے =2+2 4کا عدد (مبارک) ہُوا۔ چیئرمین کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے مولانا صاحب کو بنگلہ نمبر22میں رہائش پذیر ہُوئے اب نیاسال شروع ہو گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی پچھلی Termمیں مولانا صاحب مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ” اِک ڈکّا وی نئیں توڑ سکّے“۔ جناب حنِیف رامے اگر آج زندہ ہوتے تو مَیں اُن سے ضرور پوچھتا کہ حضرت مولانا فضل اُلرحمٰن سے وُزرا ءکی کالونی کے کِس نمبر کے بنگلے میں رہائش پذیر ہونے کے لئے درخواست کی جائے کہ مسئلہ کشمیر خُودبخود حل ہو جائے؟۔
براہمنوں کے خلاف جناب سراج اُلحق !
جناب سراج اُلحق کو امیر جماعتِ اسلامی کی حیثیت سے حلف اُٹھائے جولائی کے اواخر میں 4ماہ ہو جائیں گے لیکن موصوف ابھی تک صوبہ خیبر پختونخوا کے سینئر وزیر ہیں۔ لاہور سے”نوائے وقت“ کے نامہ نگار کی خبر کے مطابق ”جب لاہور میں جماعتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ عاملہ نے جناب سراج اُلحق سے وزارت سے مُستعفی ہونے کا مطالبہ کِیا تو انہوں نے مستعفی ہونے کے لئے مزید مُہلت مانگ لی ہے“ ۔نامہ نگار کے مطابق ” یہ بات" Confirm" نہیں ہو سکی کہ جناب سراج اُلحق نے مُہلت ایک ماہ کی مانگی ہے ،دو ماہ کی یا تِین ماہ کی؟“۔ فی الحال کم ازکم مَیں توجناب سراج اُلحق کو ایک ” مُخلِص لِیڈر“ سمجھتا ہوں ۔ بھلا اُنہیں وزارت کا لالچ کیوں ہو گا؟ کہ وہ جماعت کی مجلسِ عاملہ سے وزارت نہ چھوڑنے کا عُذر بیان کرتے ہُوئے کہتے کہ
”ابھی مَیں کیسے چھوڑ دوں کہ دِل ابھی بھرا نہیں“
جناب سراج اُلحق کو جب بھی مَیں نے کسی نیوز چینل پر امریکہ کو للکارتے اور پاکستان کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو پھٹکارتے ہُوئے دیکھا اور سُنا تو مجھے خوشی ہُوئی ۔اپنے تازہ ترین بیان میں سراج اُلحق صاحب نے کہا کہ ” کوئی عام آدمی اسمبلی کا رُکن منتخب ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا اِس لئے عوام سیاسی براہمنوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں “ جناب سراج اُلحق نے شاید وزارت سے استعفیٰ نہ دینے کی مُہلت اِس لئے مانگی ہے کہ” جب تک عوام سیاسی براہمنوں کے خلاف اُٹھ نہ کھڑے ہوں وہ وزیر کی حیثیت سے عوام کی کچھ مزید خدمت کر لیں!“۔
براہمن ہندوﺅں میں سے سب سے اعلیٰ ذات کے لوگوں کو کہا جاتا ہے ۔جنوری 1965ءمیں صدر ایوب کے خلاف صدارتی امیدوار مادرِ مِلّت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے براہمن اُن 80 ہزار بی ڈی ممبران کو کہا تھا کہ صدارتی انتخاب میںصِرف اُنہی لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا تھا۔ پاکستان کے سارے عاقل و بالغ مردوں اور عورتوں کو اِس حق سے محروم کر دِیا گیا تھا ۔اِس وقت نہ صِرف سیاسی بلکہ مذہبی براہمنوں کی تعدادبہت زیادہ ہے ۔ہر مذہبی جماعت کا ایک بہت ہی ” تنگ ،دائرہ ءاسلام“ہے ،جِس میں عام مسلمان داخل نہیں ہو سکتے ،جماعتِ اسلامی 26اگست1941ءمیں قائم ہوئی تھی ۔اُس وقت جماعت کے ارکان کی تعداد 75تھی۔جناب سراج اُلحق امیر منتخب ہُوئے تو پتہ چلا کہ جماعت کے ارکان کی تعداد ساڑھے 30 ہزار سے زیادہ نہیں جن میں پانچ ہزار نے پارٹی امیر کے انتخاب میں حق رائے دہی استعمال ہی نہیں کیا۔دوسری مذہبی جماعتوں کے ارکان اور عہدیداران بھی مولانا صاحبان اور ” نیک اور مُتقّی لوگ“ ہی ہیں۔عام آدمی کا مسئلہ تو روٹی کپڑا اور مکان ہے ۔بھلا وہ براہمنوں کے کسی گروپ کے خلاف کیوں اُٹھ کھڑے ہوں گے ؟۔یہ براہمنوں کا اپنا معاملہ ہے ۔ایک دوسرے کے خلا ف خود لڑیں!۔
عمران خان ! تصادم نہ کریں !
گھاٹ گھاٹ کا " Mineral Water" پینے کے بعد جناب شاہ محمود قریشی صاحب اب پاکستان تحریک انصاف کے سینئر راہنما ہیں۔ وہ اور اُن جیسے سردو گرم چشِیدہ اور گُرگانِ باراں دِیدہ بھی عمران خان کا گھیراﺅ کئے ہُوئے ہیں۔عجیب منطق ہے کہ 14 اگست کو جشنِ آزادی میں حِصّہ لینے کے بجائے اسلام آبادتک سُونامی مارچ اور ڈی چوک پر دھرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے ۔ شاہ محمود قریشی نے اعلان کر دِیا ہے کہ”14اگست کو آزادی مارچ ہر صُورت میں ہوگا ۔ ڈی چوک اسلام آبادمیں تصادم ہُوا تو،حُکمران ذمہ دار ہوں گے ۔حکومت نے ڈی چوک میں جشنِ آزادی کی تقریب رکھ کر حماقت کی ہے ۔وہ اپنے اِس فیصلے پر نظرِ ثانی کرے ایسا نہ ہو کہ سانحہ ءماڈل ٹاﺅن لاہور کی طرح کُچھ ہو جائے “۔
جِن پِیرزادوں ،مخدُوم زادوں ، گدّی نشِینوں ،جاگیرداروں اور وڈیروں کے آباﺅ اجداد نے تحریکِ آزادی میں حِصّہ نہیں لیا اور آخر دم تک انگریزوں کی غُلامی کی اُن کی اور سِکھوںکے لئے خِدمات انجام دے کر اُن سے جاگیریں لیں ،وہ نہیں جانتے کہ آزادی کی نعمت کیا ہوتی ہے؟۔ اِس وقت پاک فو ج کے افسران اور جوان دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور 14اگست کو پورے پندرہ سال بعد اسلام آباد کے ڈی چوک پر پاک فوج کے اعلیٰ افسران وزیرِاعظم اور اُن کے حکومتی ارکان مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدِین اور کارکُن اور مختلف طبقوںکے لاکھوں لوگ علّامہ اقبالؒ قائدِاعظمؒ اور شہدا ئے تحریکِ پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کر رہے ہوں گے ۔عمران خان اور اُن کے مُہم جُو ساتھی یہ کیا کرنے جا رہے ہیں ؟۔ اپریل2011ءمیں شاعرِ سیاست نے جناب عمران خان کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ
”تیرے سجّے کھبّے آکے بہہ گئے پُتّ وڈیریاں دے
سُفنا چکنا چُور ہویا، ہر کامے دا ،ہر کامی دا
پِیراں دی اولاد نے کِیتا ، قبضہ تیری گدّی تے
وقت توں پہلاں بھٹا بہہ گیاکیوں تیرے سونامی دا“
جناب عمران خان! آپ کرکٹ کے حوالے سے پاکستان کے عوام کے ہیرو رہے ہیں۔ اگر 4سال تک مزید صبر کریں تو شاید قومی ہِیرو بھی بن سکتے ہیں۔خُدا را ! اپنی منجی تھلّے تے سجّے کھبّے ڈانگ پھیریں اور جشنِ آزادی کے دِن تصادم نہ کریں!۔
”عمران خان ! تصادم نہ کریں!“
Jul 14, 2014