”وزیراعظم“ گیلانی کی طرح ”جنرل“ کیانی بھی بولیں

 میں یوسف رضا گیلانی کو نااہل اور کرپٹ سمجھتا ہوں۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم کو صرف پارلیمنٹ کی طرف سے نکالا جا سکتا ہے۔ وہ وزیراعظم گیلانی کے انجام پر نظر رکھیں۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ عدالت نے اسے توہین عدالت کے جرم میں اور زرداری کرپشن کی حفاظت کرنے پر نکالا۔ وہ خود بھی کم کرپٹ نہ تھا۔ اس کے لئے ایم بی بی ایس کی اصطلاح میڈیا نے بنائی۔ (میاں بیوی بچوں سمیت) وزیراعظم کے طور پر اس کا کردار بہت کمزور اور عبرتناک رہا۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مترادف وہ ڈانواں ڈول بھی رہا اور بالآخر ڈوب گیا۔ پھر ڈوبنے کے لئے ابھرے ہیں وہ زرداری کو اندر سے پسند نہیں کرتے۔ زرداری بھی نہیں کرتے مگر دونوں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے میں مصروف ہیں۔ یہ اصل میں عوام کو دھوکہ دینے کی ساری وارداتیں ہیں۔
یہ جو تازہ انکشاف گیلانی صاحب نے کیا ہے میں ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہوں۔ سیاستدان جرنیلوں سے کم نہیں اور جرنیل بھی پورے کے پورے سیاستدان ہیں۔ اب جج صاحبان بھی اسی صف میں شامل ہو گئے ہیں اور جرنلسٹس بھی؟ یہ بھی گیلانی صاحب کے انکشاف کا اعتراف ہے کہ نواز شریف نے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو وفاقی حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ صدر ممنون کے انتخاب کے لئے متحدہ اور اپنی باری کے انتظار میں پیپلز پارٹی نواز شریف کے ساتھ ہے مگر اب کے ایم کیو ایم کی ساکھ راکھ میں مل جائے گی۔ پاک فوج کے حق میں اتنی بڑی ریلی کے بعد وہ کبھی بھی وفاقی حکومت سے نہیں ملیں گے۔ وفاقی حکومت کے لئے بہرحال یہ تاثر ہے کہ وہ پاک فوج کے ساتھ آرام سے نہیں ہے۔ البتہ صدر زرداری کی سیاست بہرحال نواز شریف کے لئے سازگار نہیں ہے۔ جبکہ سازگار نظر آتی ہے۔
فرحت اللہ بابر اور جہانگیر بدر کہتے ہیں کہ ڈیل ہوئی ہی نہیں مگر پرویز رشید کہتے ہیں کہ ہم نے ڈیل مسترد کر دی تھی۔ فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ صدر مشرف مواخذے کے ڈر سے مستعفیٰ ہوئے وہ ایوان صدر کے ترجمان تھے اور صدر کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے جس کے لئے زرداری صاحب صدر بنے تھے۔ بے چارہ وزیراعظم گیلانی ان کے کرپشن مقدمات کی بھینٹ بلکہ سولی چڑھ گئے۔ وزیراعظم مر گیا۔ گیلانی زندہ ہے۔ یہ زندگی موت سے بھی بدتر ہے۔ صدر مشرف کے خلاف کون مواخذہ کر سکتا تھا۔ وہ اب صدر نہیں ہے تو سب شیر ہو گئے ہیں۔ ان میں ببر شیر کوئی بھی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے لوگوں کی باتوں میں تضاد ہے۔ سارے سیاستدانوں کے تین ہتھیار ہیں۔ تضاد‘ مفاد اور عناد مشرف تو استعفیٰ کے بعد بھی کئی مہینے پاکستان میں رہے اور پھر صدر زرداری کی پیپلز پارٹی نے اسے گارڈ آف آنر دے کے رخصت کیا۔ اپنے دور حکومت میں اس کی طرف دیکھا بھی نہیں مگر اب ”صدر“ زرداری کہتے ہیں ”بلا پھنس گیا ہے اسے جانے نہ دیں۔“ خود کیوں جانے دیا تھا؟ اب نواز شریف کو پھنسانا چاہتے ہیں۔ بلے کے بعد باگڑ بلے کی باری بھی آئے گی۔ کبھی تو آئے گی۔ اقتدار والی باریاں ختم ہوں گی تو....؟ ورنہ یہ باری کو بارہ دری بنا لیتے ہیں اور لوٹ مار کے علاوہ عیش و عشرت بھی کرتے ہیں تفریح پروٹوکول اور عیاشی بدمعاشی۔
جہانگیر بدر دوست ہے۔ پرانے کلچر اور پرانی پیپلز پارٹی کا آدمی ہے مگر ”صدر“ زرداری کی ”سازشوں اور طاقتوں“ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اسے اور قمر الزماں کائرہ کو درمیان میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ کہتا ہے کہ ڈیل نہیں ہوئی۔ انڈر سٹینڈنگ ہوئی تھی۔ گویا اب ڈیل کا نیا نام انڈر سٹینڈنگ ہے۔ انڈر سٹینڈنگ کا یہ ترجمہ ”صدر“ زرداری کو پسند آیا تھا۔ ”کائرہ کی وضاحتوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ خوف زدہ نہ ہوں۔ ان کا بیان واضح اور درست ہے۔ نواز شریف مشرف کے سب معاملات میں برابر کے شریک تھے۔ تب بھی انہیں یقین تھا کہ ان کی باری آنے والی ہے اور وہ مشرف کی زیر صدارت گیلانی کابینہ میں شامل ہوئے۔ خواجہ صاحبان اور چودھری نثار احسن اقبال ان کے نمائندے تھے۔ جب انہوں نے صدر مشرف سے حلف لیا تھا۔ وہ حکومت کا حصہ تھے تو پیپلز پارٹی کے مشترکہ فیصلوں میں شامل تھے۔
آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ صرف 12 اکتوبر والی تاریخ سے بنتا ہے اس میں بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لوگ مشرف کے اقدام کے لئے خاموش حامی تھے۔ وہ ممبران آج پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں بھی موجود ہیں جنہوں نے مشرف کو خوش آمدید کہا تھا۔ عدالتیں بھی مشرف کے ساتھ ہیں۔ خود جسٹس افتخار محمد چودھری اس بنچ میں تھے جس نے مشرف کے اقدام کو جائز قرار دیا تھا اور آئین میں ترمیم کے لئے بھی انہیں اختیار دیا تھا جس کی درخواست بھی انہوں نے نہیں کی تھی۔ طرح طرح کے لوگوں کے علاوہ مشرف کو بھی میدان میں آکے اپنی طرف سے وضاحت کرنا چاہئے تاکہ اصل صورتحال سامنے آسکے۔ نااہل اور کرپٹ ”وزیراعظم“ گیلانی کی بات کوئی حیثیت نہیں رکھتی مگر انہوں نے ایک نعرہ بلند کیا ہے اس سے پہلے کہ نعرہ نالہ و زاری بنی جائے۔ ”جنرل“ مشرف اور ”جنرل“ کیانی کو بولنا چاہئے۔
”جنرل“ کیانی ابوظہبی میں مشرف بے نظیر بھٹو معاہدے میں شامل تھے وہ این آر او کے محافظ تھے۔ وہ نواز شریف کے وزیراعظم بننے سے پہلے انہیں رائے ونڈ میں مبارکباد دینے آئے۔ جبکہ وہ ان کی ایکسٹینشن کے خلاف تھے۔ عمران خان کے ”خوف“ سے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کرنے کے لئے نواز شریف آمادہ ہیں۔ جبکہ اس کی ضرورت ان کو نہیں ہے۔ سندھ حکومت میں بھی ”صدر“ زرداری نے غیر ضروری طور پر ایم کیو ایم کو شامل کیا ہے؟ یہ بھی عمران کا خوف تھا۔ عمرن اپنے خوف میں مبتلا ہے اس سیاست میں مولانا فضل الرحمن بھی حکومت میں شمولیت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ کیا ”صدر“ زرداری اور الطاف حسین بھائی چاہیں گے کہ وہ مولانا فضل الرحمن بن جائیں۔ وہ تو طالبان کے خلاف ایکشن کے خلاف ہیں۔ عمران بھی اندر سے آپریشن کے خلاف ہے۔ سیاست میں یہ دوغلہ پن ہر پارٹی میں ہے۔
”صدر“ زرداری اور دوسرے جیالے پانچ سال کی مدت حکومت پوری کرنے کا کریڈٹ لیتے ہیں تو اپنے وزیراعظم گیلانی کی نااہلی اور پرویز اشرف کے خلاف کرپشن کے مقدمات کا ”کریڈٹ“ بھی قبول فرمائیں۔ مجھے دکھ ہوا کہ مخدوم گیلانی اور مخدوم امین فہیم کرپشن کے مقدمات کے لئے عدالت آرہے تھے اور جیالے ان کا استقبال کر رہے تھے بالکل وہی سماں تھا جوکسی تقریب کے بعد کھانے کی میز پر ہوتا ہے۔ کرپشن جو ان کے اپنے ہی دور حکومت میں ہوئی ہے۔ اب تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ والے ایک دوسرے کی حکومتوں کے محافظ ہیں۔

ای پیپر دی نیشن