ہمارے سفارت خانے کیا کر رہے ہیں؟

Jul 14, 2015

ڈاکٹر محمد بشیر گورایا

دنیا بھر کے ممالک کے سفارت خانے تمام دوسرے ممالک میں قائم ہیں اسی طرح بھارت اور پاکستان کے سفارت خانے بھی دیگر تمام ممالک میں قائم ہیں۔ بھارتی سفارتخانے دنیا بھر کے ممالک میں پاکستان کیخلاف اکثر وبیشتر الزامات کا واویلا کرتے رہتے ہیں۔ بھارت کی پالیسی یہ ہے کہ ماسوائے پاکستان تمام مسلم ممالک میں مسلمان سفیروں اور دیگر عملہ کی تقرریاں کی ہوئی ہیں تاکہ مسلم ممالک کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ بھارت میں پاکستان سے زائد مسلم آبادی ہے اور پاکستان خدانخواستہ بھارتی مسلمانوں پر ظلم ڈھا ر ہا ہے۔ ہمارے سفار ت خانوں میں سفیر اور منسٹر تو وزارت خارجہ کے ملازمین ہوتے ہیں بلکہ سفیر کی آسامی پر بعض اوقات کسی سیاسی یا غیر سیاسی شخصیت کی تقرری بھی کردی جاتی ہے لیکن منسٹر کی آسامی پر وزارتِ خارجہ کے ملازمین میں سے ہی کسی کی تقرری کی جاتی ہے۔محکمہ خارجہ کے دیگر ملازمین کے علاوہ ہر سفارت خانے میں محکمہ اطلاعات، محکمہ تعلیم، محکمہ انڈسٹری اینڈ کامرس ، محکمہ سیاحت اور افواج پاکستان کے ایک بریگیڈیئر اور اس کے ساتھ ضروری عملہ کے لوگ بھی متعین ہوتے ہیں۔ قارئین کی سمجھ سے بالا تر ہے کہ محکمہ انڈسٹری اینڈ کامرس کے عملہ نے سفارت خانہ کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے آج تک ملکی ایکسپورٹ میں کیا اضافہ کیا ہے؟ محکمہ اطلاعات کے عملہ نے دیگر ممالک میں پاکستان کی ہمدردی اور امیج (Image) کیلئے کیا فضا ہموارکی ہے؟محکمہ تعلیم کے عملہ نے ان ممالک سے اپنے ملک کے طلباء کیلئے ہر سال کتنے وظائف حاصل کیے ہیں؟ محکمہ سیاحت کے عملہ نے اپنے ملک کے سیاحتی مقامات کی دیگر ممالک میں کیا تشہیر کی جس کے سبب ملک میں سیاحوں کی آمد سے ملکی زرمبادلہ بڑھ گیا؟ افواج پاکستان کے عملہ نے سفارت خانہ کی وساطت سے اپنے ملک کیلئے کیا خدمات انجام دی ہیں؟ سب چیزیں سوالیہ نشان ہیں؟
ایک مصدقہ اطلاع کیمطابق ہماراچاول جن ممالک میں جاتا ہے بھارتی تاجر اُن ممالک کی منڈی سے تمام پاکستانی چاول خرید کر بھارتی باردانہ میں بھر کر فروخت کرتے ہیں اور بھارتی چاول پاکستانی بار دانہ میں بھر کر فروخت کرتے ہیں اس طرح پاکستان کا بہترین چاول بھارت کے تاجر دھوکہ دہی کرکے بھارتی چاول کے لیبل سے فروخت کرکے اپنے ملک کی ایکسپورٹ بڑھا رہے ہیں اور بھارتی کم درجہ کے چاول کو پاکستانی لیبل لگا کر فروخت کرکے پاکستانی چاول کی ایکسپورٹ کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور ہمارے سفارت خانے والے اس پر خاموش ہیں۔بھارتی افواج بارڈر ایریا میں پاکستان کے اندر گھس گھس کر بھی پاکستانی شہریوں کو آئے دن شہید کرتے رہتے ہیں اس پر طرہ یہ کہ بھارت شور مچا رہا ہے کہ پاکستانی افواج بھارتی شہریوں پر فائرنگ کر رہی ہے۔ اس بارے میں بھی ہمارے سفیر حضرات جن جن ممالک میں کام کر رہے ہیں وہاں کی حکومتوں کو صحیح صورتِحال سے آگاہ نہیں کر رہے۔لہذا دنیا والے سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان ہمسایہ ملک کے ساتھ زیادتی کررہا ہے۔حکومت ِپاکستان کو چاہیے سفارت خانوں میں متعین کیے جانیوالے تمام عملہ کی یہاں اس طرح کی ٹریننگ کا بندوبست ہو کہ ’’جوڈیشنل اکیڈمی ‘‘کی طرز پر خارجہ امور کی اکیڈمی قائم کی جائے جس میں سفارت خانوں میں بھیجے جانیوالے تمام عملہ کی خارجی امور کے ماہرین ٹریننگ اور ریفریشر کورس کراتے رہیںاور ان کو ذمہ داریاں سونپتے وقت روزانہ کی بنیاد پر کارکردگی رپورٹ تیار کرکے بذریعہ سفیر پاکستان بھیجنے کا پابند کیا جائے۔ پھر پاکستان میں ان رپورٹوں کا جائزہ اور تجزیہ کیلئے عملہ موجود ہو جو روزانہ کی بنیاد پر سیکرٹری خارجہ کو سفارت خانوں کے عملہ کی کارکردگی سے آگاہ کرتا رہے۔جس طرح ہمارے محکمہ پولیس میں ہر ضلع میں ایک ایس پی کو پورے ضلع کی رپورٹیں ہر روزآجاتی ہیں۔ ایس پی صاحب تمام رپورٹوں کا جائزہ اور تجزیہ تیار کرکے روزانہ مغرب تک صوبہ کے ایڈیشنل آئی جی کو ارسال کردیتا ہے اس طرح ملک کے امن امان ، سیاسی اور مذہبی سرگرمیوں سے محکمہ باخبر رہتا ہے۔ اس نیٹ ورک کی طرز پر سفارت خانوں میں موجود محکمہ اطلاعات، انڈسٹری اینڈ کامرس، محکمہ تعلیم، محکمہ سیاحت اور افواجِ پاکستان کے وہاں متعین عملہ کے تمام محکموں کی سرگرمیوں سے اپنی اپنی روزانہ کی کارکردگی بین الاقوامی قانون کومدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے ملک کو مطلع کرتے رہیں اور فرضی کارروائیوں کی بجائے حقیقی کارکردگی سے آگاہ کرتے رہیں تو ہو سکتا ہے حکومت ِ پاکستان کئی معاملات میں بہتری لانے کیلئے کوئی لائحہ عمل اختیار کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
سفارت خانوں کا عملہ اپنے ملک کو یہ بھی اطلاع دے سکتا ہے کہ کون کون ممالک پاکستان میں انتشار برپا کرنے کیلئے کن کن لوگوں کو تیار کررہا ہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے تمام سفارت کار خواہ ان کا تعلق پاکستان کے کسی بھی محکمہ سے ہے وہ اپنے اپنے شعبہ میں غیر ممالک میں اس طرح کام کریں کہ وہاں کی حکومتوں اور عوام الناس کے دل موہ لیں تاکہ وہ ممالک پاکستان کے بھائی بھائی بن کر کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کو اس طرح تیار ہو جائیں کہ زندگی کے تمام شعبوں میں ہمیں ان کا تعاون حاصل ہو جائے ۔وہ ممالک پاکستان میں انوسٹمنٹ کریں ، پاکستان کیساتھ تجارت بڑھائیں، پاکستانی طلبا کیلئے دل کھول کر وظائف دینے کا اعلان کریں۔ پاکستان کے بعض شعبہ جات میں اپنے ممالک کے آفیسروں کو ٹریننگ کیلئے بھجوائیں اور پاکستان سے لیبر اور تعلیم یافتہ جوانوںکی خدمات حاصل کریں تاکہ ان ممالک کے افسروں کو اعلیٰ معیار کی تربیت حاصل ہو اور ہمارے ملک سے بے روزگاری ختم ہو، اس طرح ملک میں امن اور ترقی کا نیا دور شروع ہوسکے۔ پاکستان میں انڈسٹریل پیداوار بڑھ سکے اور پاکستانی پیداوار کی ایکسپورٹ بھی بڑھ سکے، تب ہم کہہ سکیں گے کہ فلاں فلاں سفارت کار ملک وملت کا اثاثہ ہیں۔ایسے سفارت کاروں کی خدمات کے اعتراف میں حکومت ان کو اعزازات سے نوازے اور سپیشل انعامات دینے کا اعلان کرے۔ اب دہاڑی دار سفارت کاری ختم ہونی چاہیے صرف مال و دولت کمانے اور مغربی ممالک کی شہرت حاصل کرنے کیلئے سفارت خانوں میں جانے والوں کو روکنا ہوگا۔ چھ چھ ماہ کیلئے وزارت خارجہ کی جانب سے سفارت کاروں اور تمام عملہ کیلئے ٹارگٹ دیئے جائیں جو حضرات وہ ٹارگٹ پورے نہیں کرتے ان کو فوری طور پر واپس بلایا جائے اور ان کی جگہ کام کرنے والوں (Wiling Worker) کو بھیجا جائے پھر دیکھتے ہیں پاکستان کا دنیا میں امیج (Image) کیوں بہتر نہیں ہوتا۔ ہندو رہنماوں کو مسلم ممالک میں حضرت مولانا کہنا کیوں بند نہیں ہوتا؟ پاکستان کے سیاحتی مقامات پر رونقیں کیوں نہیں بڑھتیں؟ اسکے ساتھ حکومت ِپاکستان کا رویہ بھی دیگر ممالک کیساتھ نہایت قابل تعریف ہونا چاہیے تاکہ سفارت کاروں کی محنت کا پورا پورا فائدہ اٹھایا جا سکے۔

مزیدخبریں