آئیل آف وائٹ

محسن نقوی مرحوم کا زندہ شعر ہے…؎
شاید کیا کسی نے ہے بخل زمیں پہ طنز
گہرے سمندروں سے جزیرے نکال کر
بخل زمین اپنی جگہ‘ درحقیقت جزیرے اسکی مانگ کا سندور ہیں‘ چہرے کا غازہ ہیں‘ ماتھے کا جھومر ہیں‘ اسکے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ دلکشی کو بڑھاتے ہیں۔ آئیل آف وائٹ ایک ایسا ہی خوبصورت دیدہ زیب اور جاذب نظر جزیرہ ہے جو برطانیہ کی عظمت اور شہرت میں اضافہ کرتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ گریٹ برٹن بذات خود ایک جزیرہ ہے۔ گویا جزیرے میں جزیرہ پیدا ہو گیا ہے۔ برطانیہ میں جو معدودے چند جزیرے ہیں‘ یہ ان میں سے ایک ہے۔ آئیل آف مین یعنی ایک جزیر ہے‘ لیکن اسکی وجہ شہرت کچھ اور ہے۔ دنیا بھر کے دولت مند اپنی خفیہ دولت وہاں رکھتے ہیں۔ پاکستان کے ذمہ داروں اور شرفاء نے بھی وہاں اپنے حصے کی ’’شمعیں‘‘ جلا رکھی ہیں۔ شکوہ ظلمت شب بیس کروڑ عوام کا مقدر ہے۔ اسکے برعکس آئیل آف وائٹ ایک معصوم جزیرہ ہے جسکے تین اطراف سرسبز درختوں نے چھتری سی تان رکھی ہے۔ چوتھی سمت وسیع گہرا نیلگوں سمندر ہے جسکے پانی فرانس اور بلجیم کے پانیوں سے ٹکراتے ہیں۔ اس کا رقبہ 384 کلومیٹر ہے۔ آبادی دو لاکھ سے زائد نہیں ہے۔ لندن سے تین گھنٹے کے فاصلہ پر ہے۔ ٹرین دو گھنٹوں میں پورٹس مائوتھ کی بندرگاہ تک پہنچتی ہے۔ آگے فیری میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ بیس منٹ کے سمندری سفر کے بعد پھر ٹرین رائیڈ ہے۔ اہل برطانیہ روایات کے اسیر ہیں۔ سٹیم انجن‘ کوکو کرتی ریل گاڑی‘ چھک چھک کرتا ہوا انجن۔ مختلف شہروں سے ہوتی ہوئی ٹرین شینکلن پہنچتی ہے جو جزیرے کا سب سے بڑا ٹائون ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ٹینی سن روڈ Swin Bourw نے اپنی شہرہ آقاق نظمیں لکھیں۔ ملکہ وکٹوریہ کو اس جزیرے سے دیوانگی کی حد تک پیار تھا۔ اس نے اپنا ہنی مون یہاں منایا۔ سال میں کئی ماہ اپنے گھر Osburne House میں گزارتی ملکہ الزبتھ بھی اپنی اس بہو کے ساتھ یہاں آتی تھی جسے لوگ دلوں کی شہزادی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اپنی ناجوازیوں کے باوصف ڈیانا ہر دل کی دھڑکن بنی۔ اسے گزرے ہوئے کئی برس ہوگئے ہیں‘ لیکن یاد ہنوز زندہ ہے۔ لندن کے ہائیڈ پارک میں سیر کرتے ہوئے جب میںمنرنگن پلیس کے پاس سے گزرتا تو محل کے مرکزی دروازے پر سینکڑوں گلدستے پڑے دیکھتا۔ لوگ خشوع و خضوع کے عالم میں احترماًسر جھکائے کھڑے نظر آتے۔ مصر کے کھلنڈرے بادشاہ فاروق نے کہا تھا دنیا میں بادشاہی ختم ہو جائیگی‘ لیکن پانچ بادشاہ قائم رہینگے۔ چار تاش کے اور پانچواں شاہ برطانیہ ۔اس جمہوری ملک میں لوگوں کی شاہ پرستی ایک Enigma ہے۔
میں ایک جہاںگرد شخص ہوں۔ موسم گرما شروع ہوتے ہی پائوں میں ایٹٹھن سی ہونے لگتی ہے۔ بارہ سال تک ایک تسلسل کے ساتھ پاکستانیوں کو لیکچر دینے ناروے جاتا رہا۔ یہ دور افتادگی کرب ہے جو پاکستانی پردیس میں بھی یوم آزادی شایان شان طریقے سے مناتے ہیں۔ میرے لئے Around The World سفر کا بندوبست کرتے۔ اس مرتبہ مشرق بعید کے راستے لاس اینجلس پہنچنے کا ارادہ تھا۔ ہوائی میں چند دن قیام‘ یہ وہ جزیرہ ہے جسے برطانوی جہاز ران کیپٹن کک نے دریافت کیا تھا۔ بڑا عجیب منظر تھا۔ جب اس نے جہاز سے اتر کر دھرتی پر قدم رکھا تو مقامی لوگوں نے اسے اپنے دیوتا‘ Lono کا اوتار سمجھا۔ تین ہزار لوگ بیک وقت سجدہ ریز ہو گئے۔ خلق اور ’’خالق‘‘ کا یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چل نہ سکا اور وہ انہی لوگوں کے ہاتھوں مارا گیا جنہوں نے اسے بھگوان سمجھا تھا۔ برطانیہ میں صف ماتم بچھ گئی‘ لیکن پادری خوش تھے۔ ایک دہریا اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا تھا۔ اصل المیہ اس سے بھی بڑا تھا۔ کس نے کمایا‘ کس نے اڑایا کے مصداق یہ خوبصورت جزیرہ برطانیہ کے ہاتھوں سے پھسل کر امریکہ کے ہتھے چڑھ گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان پرل ہاربر پر حملہ کرنے کی غلطی کر بیٹھا۔ نتیجتاً ہیروشیما اور ناگا ساکی آج بھی حالت سوگ ہی میں ہیں۔
میرے دوست راشد حسین صاحب کا فون آیا۔ انہوں نے اس خوبصورت جزیرے میں ایک نہایت پُرآسائش بڑا ہوٹل Malbourne Ardenlleau خریدا ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ میں یہاں چند دن گزاروں۔ راشد حسین کا تعلق بھی لاہو رسے ہے۔ یہ نہایت کامیاب بزنس مین ہیں جن کا کاروبار لندن سے مشرق وسطیٰ تک پھیلا ہوا ہے۔ مخیر انسان ہیں۔ لاہور میں اندرون شہر ایک خیراتی ہسپتال کھول رکھا ہے۔ کئی بیوائوں اور بے سہارا لوگوں کی نگہداشت کرتے ہیں۔ چودھری سرورکی طرح سیلف میڈ ہیں‘ لیکن دونوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ چودھری صاحب Pulicity Happy انسان ہیں ایسے جو؎
ہزاروں مصلحتوں کو شمار کرتے ہیں
تب ایک زخم جگر اختیار کرتے ہیں
راشد صاحب کو ستائش کی تمنا ہے نہ صلے کی پروا۔ چودھری سرور کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ لائلپور میں گورنمنٹ کالج میں پڑھتے تھے۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ سٹوڈنٹس لیڈر تھے۔ میں سٹی مجسٹریٹ تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے حکومت کیخلاف جلوس نکالا تو مجھے ان کی مزاج پرسی کرنا پڑی۔ وہ ایک ’’سوٹی‘‘سے سقہ لیڈر بن گئے ۔کہتے ہیں کہ سوٹی کیا پڑی لگاایک وزنی ہتھوڑا گرا ہے۔ اگر یہ تھوڑا سا بھی تاریخی شعور رکھتے تو انہیں معلوم ہونا چاہئے تھاکہ راج نیتی میں محسنوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ گورنر ہائوس میں قدم رکھنے سے پہلے ’’صف شہدا‘‘ تو دیکھ لیتے۔ Desperation میں انہوں نے تحریک انصاف جائن کر لی ہے۔ خدا انہیں ترینوں اور قریشیوں کے جال سے محفوظ رکھے۔
ہوا تیز ہے۔ میں شینکلن بیچ کی نرم سفید ریت پر بیٹھا ہوں۔ سمندر سے اٹھتی ہوئی پُرنم ہوا کا لمس سارے وجود کو سرشار کر رہا ہے۔ نیلگوں سمندر حد ِنگاہ تک پھیلا ہے جس میں باد بانی کشتیاں راج ہنسوں کی طرح ڈول رہی ہیں۔ ایک بوڑھا انگریز جس نے فیلٹ ہیٹ اور ڈھیلا ڈھالا لباس پہنا ہوا ہے Seagulls کوچپس کھلا رہا ہے۔ پرندے ڈر خوف کے بغیر اسکے اردگرد گھوم رہے ہیں۔ جہاں انسان آزاد ہوں‘ وہاں چرند پرند بھی سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ سینکڑوں جوڑے سوئمنگ کاسٹیوم پہنے نہا رہے ہیں۔ کچھ ریت پر لیٹے غسل آفتاب کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ وقتی طورپر رہی سہی سب غم و آلام اور تفکرات ہوا میں تحلیل ہو گئے ہیں۔ بیچ بھی ایک خوبصورت عورت کے مانند ہوتی ہے۔ حسین‘ مغرور‘ مخمور‘ دلکش اور خود بیں۔ شینکلن بیچ اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اسکے ایک طرف سمندر ہے تو دوسری جانب سرسبز پہاڑیاں ہیں جن پر شہر آباد ہے۔ ملک میں لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں غضب کی گرمی کے ستائے ہوئے لوگ حکومت کو ہمہ وقت ’’دعا‘‘ دیتے ہیں۔ یہاں آکر جب آدمی واضح تضاد اور تفاوت دیکھتا ہے تو دست دعا مزید دراز ہو جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن