بھارتی قیادت پر واضح کر دیا‘ کشمیر کے بغیر مذاکرات نہیں ہونگے: سرتاج عزیز

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ نیٹ نیوز+ ایجنسیاں) پاکستان نے کہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر بات کئے بغیر بھارت کے ساتھ باضابطہ مذاکرات شروع نہیں کئے جائیں گے۔ روسی شہر اوفا میں پچھلے ہفتے پاکستان اور بھارتی وزراء اعظم کے درمیان ملاقات کے بعد پاکستان پہنچنے پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر سینیٹر سرتاج عزیز نے کہا کہ اس ملاقات میں بھی کشمیر کے معاملے پر بات ہوئی اور بھارتی قیادت پر واضح کیا گیا ہے کہ کشمیر پر بات کئے بغیر بھارت کے ساتھ مذاکرات نہیں کئے جا سکتے۔ مشترکہ اعلامیہ میں بھی تمام حل طلب مسائل پر بات کرنے کا ذکر ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے اہم حل طلب مسئلہ کشمیر ہی ہے۔ اس ملاقات کے بعد اب مذاکرات کی باضابطہ بحالی پر بات ہو سکتی ہے لیکن میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ کشمیر کو ایجنڈے میں شامل کیے بغیر دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات نہیں ہو سکتے۔‘ انہوں نے کہا کہ دونوں سربراہان حکومت کے درمیان ملاقات کو مذاکرات کا آغاز نہیں کہا جا سکتا۔ ’10 جولائی کی ملاقات باضابطہ مذاکرات کا حصہ نہیں تھی لیکن اس کا مقصد یہی تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کم کر کے باضابطہ مذاکرات کی جانب قدم بڑھایا جائے۔‘ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے اور یہ بات وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بھارتی ہم منصب کو بھی ملاقات میں بتائی ہے۔ ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے غیر رسمی انداز میں اپنے مرضی کے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم نوازشریف نے بھارتی وزرا کے اشتعال انگیز بیانات اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے معاملات اٹھائے۔‘ معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کیا گیا۔ بھارتی وزیراعظم نے پاکستان پر سرحد پار سے دراندازی کا الزام لگایا۔ ’دونوں طرف ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ قومی سلامتی کے مشیر انہی موضوعات پر پہلے نئی دہلی اور پھر اسلام آباد میں ہونے والی ملاقاتوں پر پر بات کریں گے۔ قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات کا مقصد ہی یہی ہے۔‘ بعض دوست ممالک کی مداخلت کی وجہ سے دونوں ملکوں کے سربراہان میں ملاقات ممکن ہوئی ہے اگر دوست ملکوں کی یہ دلچسپی جاری رہی تو پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی بحالی ممکن ہو سکتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان مذاکرات کے حق میں ہے لیکن اس کے لئے اپنا وقار داؤ پر نہیں لگائے گا۔ ’مذاکرات کے آغاز کی خواہش رکھتے ہوئے، دونوں ملکوں میں کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، ہم تمام معاملات پر اپنے اصولی مؤقف پر قائم رہیں گے۔‘ سربراہ ملاقات کے موقع پر بہت سے معاملات پر پیش رفت ہوئی ہے۔ ’اس اہم ملاقات کے موقع پر مشترکہ اعلامیہ جاری ہونا ہی اہم ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کے پچھلے سال اسی طرح کی ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ تک جاری نہیں ہوا تھا۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔‘ بھارت سے مذاکرات میں کشمیر کا مسئلہ سرفہرست ہو گا، اوفا میں بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کی اور مذاکراتی عمل کا باضابطہ آغاز تھا نہ ہی یہ ملاقات کوئی بڑا بریک تھرو تھا۔ پاکستان دہشت گردوں کی معاونت کے معاملے پر بھارت کے خلاف اقوام متحدہ میں جانے کا فیصلہ اب دونوں ممالک کے سکیورٹی مشیروں کی ملاقات کے بعد کرے گا۔ قومی سلامتی کے مشیروں کی پہلے ملاقات دہلی پھر اسلام آباد ہو گی۔سرتاج عزیز نے کہاکہ وزیراعظم نواز شریف اور نریندر مودی ملاقات میں مسئلہ کشمیر سمیت تمام ایشوز پر بات ہوئی، وزیراعظم نے سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کی تحقیقات مانگی ہے،کشمیر سرفہرست دوسرے تصفیہ طلب امور میں سرکریک، سیاچن، سرحدی مداخلت اور پانی کا مسئلہ ہے، پاکستان کشمیریوں کی جائز جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑا ہے، کشمیری بھائیوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے۔ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کا مکمل رکن بن گیا ہے،وزیراعظم نواز شریف اور روسی صدر ولادی میرپیوٹن کے درمیان ملاقات میں باہمی تعلقات مضبوط بنانے پر اتفاق ہوا ہے، وزیراعظم کی صدر شی چن پنگ سے ملاقات میں ، پاکستان چین اقتصادی راہداری اور باہمی تعلقات پر بات چیت ہوئی، وزیراعظم کی افغان صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات ہوئی، جس میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مری میں ہونے والی ملاقات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات بھارتی تجویز پر ہوئی، دونوں وزرائے اعظموں کی ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی، ملاقات کشیدگی کم کرنے اور بامعنی مذاکرات کیلئے راہ ہموار کرنے میں معاون ثابت ہو گی، یہ ملاقات باضابطہ مذاکرات کا آغاز نہیں تھا، دونوں ممالک کے درمیان ایک دوسرے کے تحفظات پر دوستانہ ماحول میں بات ہوئی ہے اس ملاقات نے موقع فراہم کیا ہے کہ دونوں ممالک کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور پر بات چیت کریں، دونوں ملکوں نے امن و ترقی کو مشترکہ ذمہ داری قرار دیا، امن و ترقی کے مقصد کے حصول کیلئے دونوں ملک تمام تصفیہ طلب امور پر بات کرنے کیلئے تیار ہیں۔ کشمیر تصفیہ طلب امور میں سرفہرست ہے، دوسرے تصفیہ طلب امور پر سرکریک، سیاچن، سرحدی مداخلت اور پانی کا مسئلہ ہے ۔ دونوں ملکوں نے مذاکرات کی بحالی پر اتفاق کیا، ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری پر امن دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے، طویل عرصے سے حل طلب مسائل کے حل کیلئے ٹریک ٹو مذاکرات کی بحالی پر اتفاق ہوا ہے، ممبئی حملہ کیس سے متعلق بھارت سے مزید معلومات اور شواہد مانگے ہیں۔ وزیراعظم نے سمجھوتہ ایکسپریس کی تحقیقات کے حوالے سے معلومات مانگی ہیں، وزیراعظم پر امن ہمسائیگی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، پاکستان کی خارجہ اور سلامتی پالیسی مضبوط دفاعی صلاحیت اور عوام کی سماجی و معاشی بہبود پر قائم ہے۔ ایران پر پابندیاں ہٹنے کے بعد اس کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ پر کام کا آغاز ہماری ترجیح ہو گی۔ وزیراعظم نوازشریف کی بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کسی مذاکراتی عمل کا باضابطہ آغاز نہیں تھی، مسائل کے حل کیلئے بات چیت کی غرض سے مفاہمت کے حصول کا موقع میسر آیا، مشترکہ اعلامیہ میں تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کا ذکر ہے جن میں کشمیر سرفہرست ہے۔ جنوبی ایشیا کے عوام امن کے خواہاں ہیں۔ وزیراعظم کی روسی صدر پیوٹن سے ہونیوالی ملاقات میں تجارت، سرمایہ کاری اور دفاع کے شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا، اشرف غنی اور نوازشریف نے پاکستان میں افغان حکومت اور افغان طالبان کے وفود کی 7جولائی کو ہونے والی ملاقات پر اطمینان کا اظہار کیا، پُرامن اور خوشحال افغانستان خطے کے بہترین مفاد میں ہے۔ چینی صدر سے ملاقات میں ان کے دورہ پاکستان کے دوران ہوئے فیصلوں پر عملدرآمد کا جائزہ لیا گیا، فی الوقت داعش بڑا مسئلہ نہیں، مستقبل میں ہو سکتی ہے، پاکستان، افغانستان کو تعاون کرنا ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...