برصغیر کی مصدقہ تاریخ سکندر اعظم کی آمد سے شروع ہوتی ہے۔ وہ اس لئے کہ ارسطو کا یہ شاگرد جب یونان سے اپنے لشکر کے ساتھ چلا تو اسکے ساتھ مورخین، جغرافیہ دان، معالج اور موسمی ماہرین کی ایک ٹیم تھی۔ جن کی بدولت ہم سکندر کی ڈھائی ہزار سال پرانی معرکہ آرائیاں اور واقعات کا بڑی تفصیل سے مشاہدہ کر سکتے ہیں۔مؤرخین نے فرمانرواؤں کی دو بد عادات کو کبھی معاف نہیں کیا۔ بزدلی اور غداری۔ اور نہ اس فوج کو فتح نصیب ہوئی جس نے میدان جنگ میں کمانڈ ہاتھی کا ہودا (زین) خالی پایا۔ یا خالی ہودے پر بروقت آ کر کسی نے کمانڈ نہ سنبھالی۔
تاریخ میں راجہ پورس کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے جس نے زخموں سے چور ہو کر بھی ہودا نہ چھوڑا اور اس وقت کی سپر طاقت کیخلاف جنگ کرتا رہا۔ اس وقت کے عینی شاہدین بعض مؤرخ راجہ امبی کو تحریروں اور شعروں میں بہت کوستے ہیں جس نے جنگ کئے بغیر سکندر کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔
جنرل نیازی کی وفات پر بھارتی جنرل جے ایف جیکب کا بیان شائع ہوا تھا کہ ’’اگر جنرل نیازی صرف دو دن قائم رہتے تو ہمارے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہو جاتیں۔ جنرل نیازی اچھا سپاہی تھا لیکن اس میں سٹرٹیجک ویژن نہ تھی۔ میرا خیال ہے وہ حوصلہ ہار گئے۔ وہ بٹالین کی کمان تو کر سکتا تھا۔ لیکن بڑی فوج کو سنبھالنا اسکے بس کی بات نہ تھی‘‘۔ جنرل جیکب اپنی کتاب میں لکھتا ہے۔ ’’نیازی کی سٹرٹیجی غلط تھی۔ وہ شہروں کا دفاع کرتا رہا۔ ہم شہروں کو بائی پاس کرتے رہے‘‘۔ راقم چونکہ جنرل نیازی کے سٹاف پر دو سال رہا اس لئے جنرل جیکب کے مشاہدہ کو درست تسلیم کرتا ہے۔
جنگی ایام میں راقم ملک کے سب سے بڑے حساس ادارے (اسلام آباد) میں تعینات تھا۔ ہمارے ڈائریکٹر جنرل جب بھی صدر جنرل یحییٰ خاں کو اطلاعات دینے یا احکام لینے جاتے تو عموماً جواب ملتا کہ ’’صاحب نشہ کی حالت میں ہے یا وہ جام پہ جام چڑھا کر ٹہل رہے ہیں‘‘۔ جنرل یحییٰ خاں جنگی ایام میں آپریشن روم نہ گئے صرف ایک دن گئے اور آرمرڈ سٹرائیک فورس جو دریا ستلج کے قریب جنرل ٹکا خاں کی کمان میں مشرقی پنجاب پر یلغار کیلئے تیار کھڑی تھی اسے حکم ’’جہاں ہو وہاں منجمد ہو جاؤ‘‘ دیکر چلے آئے (بیان بائی سٹاف افسر صدر پاکستان بریگیڈئر محمد افضل خاں)۔مشرقی پاکستان میں ہمارا فرنٹ لائن جنرل وقت سے بہت پہلے حوصلہ ہار گیا اور حاکم اعلیٰ کو شراب و کباب نے مست کئے رکھا۔ یعنی دوران جنگ ملک کا فرمانروا اور مشرق میں سپہ سالار دونوں پورے ہوش و حواس میں نہ تھے۔ پھر جو ہوا اس پر کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ایسے اوقات میں اگر ملک کا سربراہ کوئی باکردار، جرأت مند اور باصلاحیت ہوتا اور کابینہ ٹیم چاق و چوبند اور دیانت دار ہوتی وہ مشرقی پاکستان کے جرنیلوں کا مورال اپ کر کے جنگ کو طول دلوا سکتے تھے۔ جنرل ٹکا خاں جس نے صرف 6 ماہ پیشتر مغربی بنگال پر فوج کشی کر کے حملہ آوری کی اجازت مانگی تھی اور فتح کی یقین دہانی کرائی تھی، اسے ہی مشرقی پاکستان میں رہنے دیا جاتا تو سرینڈر نہ ہوتا۔ اس حقیقت کو بھارتی جرنیلوں نے اپنی تصانیف میں تسلیم کیا ہے۔
ایسے جنگی اوقات میں جب دشمن کو شکست دینا مشکل ہو جائے اور اپنی فوج کو شکست کا سامنا ہو۔ فیلڈ مارشل منٹگمری اپنی کتاب History of Warfare میں لکھتا ہے۔ ’’جنگوں میں جرنیلوں کو اہداف سیاسی حکمران ہی دیتے ہیں۔ اگر اس وقت حکمرانوں کے پاؤں ڈگمگا جائیں یا انکے ارادوں میں کمزوری اور لغزش آ جائے تو فتح شکست میں بدل جاتی ہے‘‘۔
تقریباً 48 دن پاکستان کے وزیراعظم جناب محمد نواز شریف لندن میں زیرعلاج رہے۔ سنا ہے ان کے چار بائی پاس ہوئے ہیں وہ اس بڑی ہارٹ سرجری کے بعد وطن واپس آ چکے ہیں۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ انہیں کلی صحت عطا فرمائے اور وہ ذمہ داریاں احسن طریق سے سنبھال لیں۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ اور دو ماہ سے ہودا (ہاتھی کی کاٹھی) خالی پڑا ہے۔ بعض دشمن ہمسائے پراکسی وار میں دہشت گردی کی جنگ میں 60 ہزار پاک شہری اور تقریباً 10 ہزار سکیورٹی اہلکار بمع افسران نگل چکی ہے اور ہمارے ازلی دشمن متواتر کھلی جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ملک کے اندر نہ کوئی وزیر خارجہ نہ مؤثر وزیر دفاع ہے۔ امریکہ کا جھکاؤ بھارت کی طرف۔ افغانستان، ایران اور عرب ورلڈ بھی بھارتی اثر و رسوخ میں جاتے نظر آ رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستانی وزیراعظم کا ہودے سے 48 دن غائب رہنا اور اتنی مدت کیلئے کسی اہل، صحت مند اور باصلاحیت پارلیمنٹیرین کا اس عہدہ پر فائز نہ ہونا ملکی سلامتی کیلئے مضر اقدام تھا۔ خاص طور پر ایسے اوقات میں جب بھارتی عقاب را، موساد، سی آئی اے، افغان ایجنسیوں سے مل کر پاکستان کو مزید دولخت کرنے کی منصوبہ بندیاں کر رہے ہیں جبکہ دشمن بعض سیاسی لیڈروں اور سہولت کاروں کے ذریعے ملک کے اندر اپنے جال بچھا چکا ہو۔ ایسے میں صرف اور صرف باکردار، دیانتدار، صحت مند اور دشمنوں کے سامنے نہ جھکنے والی ملکی قیادت ہی پاکستان کو بچا سکتی ہے۔ وہ اس لئے کہ جنگی ایام میں اگر حکمران باصلاحیت اور چاق و چوبند نہ ہوں اور قوم ان کا ساتھ نہ دے تو تعداد میں بڑی اور جدید ہتھیاروں سے لیس دشمن افواج کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
ملک بچانے کیلئے اس وقت باصلاحیت، صحت مند، باکردار قیادت کی اشد ضرورت ہے جو جرنیلوں کو آڑے وقت میں حوصلہ کے ساتھ ڈائریکشن بھی دے سکے لیکن یہاں تو سیاسی لیڈر فوجیوں کا مورال اپ کرنے کیلئے انکے اگلے مورچوں تک کا سفر گوارا نہیں کرتے۔ اگرچہ افغانستان میں امریکی صدور اور وزراء اپنے فوجیوں کی خبرگیری کیلئے آتے رہے اور ان میں گھل مل جاتے رہے۔ ہمیں اس وقت ایسی قیادت درکار ہے جو کرپشن، دہشت گردی، کمر توڑ مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری، بے تحاشہ یوٹیلٹی بلوں، منی لانڈرنگ، بدیشی قرضوں، مافیاز، قبضہ گروپوں، دشمن کے سہولت کاروں، غربت اور ناانصافیوں کی چکی میں پسی قوم کو راہ نجات دلا سکے۔ جو سرحد پار سے حملہ آوروں کا برق رفتاری سے جواب دے۔ جہاں مزدور کسان کی اولاد کیلئے بہتر حصول تعلیم آسان ہو جائے اور جو سرحد پار سے حملہ آوروں کا برق رفتاری سے جواب دے سکے۔
جنرل اسلم بیگ لکھتے ہیں۔ ’’مودی نے تو ابھی تک ایک جنگ نہیں لڑی ابھی تو مودی اور انکے حواریوں نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے لیکن آثار بتاتے ہیں کہ جنگ کے شعلے عنقریب بھڑکنے والے ہیں۔ روسی فلاسفر نے ٹھیک کہا تھا کہ ’’آپ شاید جنگ کرنے میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں لیکن جنگ آپ کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی‘‘۔ایسے حالات میں حکومت اور مسلح افواج کا ایک پچ پر رہنا ضروری ہے۔ دشمنوں کو آموں کی پیٹیاں اور ساڑھیاں بھیجنے کی بجائے ان کی جنگی دھمکیوں کا شیر کی دھاڑ سے جواب دیں۔ یہ کام صرف سپہ سالار کا ہی نہیں۔ وزیراعظم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔سیاسی لیڈر اور حکمران مست ہاتھیوں کی طرح آپس میں لڑنا بند کریں اور ملکی دفاع پر توجہ مرکوز کر دیں اسلئے کہ پاکستان کی سلامتی خطرے میں ہے۔ پاکستان میں سابق ہسپانوی سفارت کار خاتون کی کتاب PAK Under Siege میں لکھا ہے۔ ’’پاکستان میں چاروں اطراف گھراؤ کیا جا رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے سینکڑوں سال قبل عیسائیوں نے Moorish Spain (ہسپانیہ کے مسلمان) کا محاصرہ کیا تھا‘‘۔ موصوفہ نے یہ کتاب پاکستان سے جانے کے بعد لکھی۔کیا ہمارے حکمرانوں میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ دشمن کے محاصرے کو توڑ سکیں۔ کیا ہارٹ سرجری کے بعد وزیراعظم اندرون اور بیرون ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کا مؤثر طریق سے مقابلہ کر سکیں گے؟
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں سنگین حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے چیتے کا جگر اور شاہین کا تجسس دے۔