اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) چیف جسٹس نے نیب کیس میں ناقص کارکردگی اور نامزد ملزموں کے وارنٹ جاری نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ نیب بطور ادارہ لاعلاج ہوچکا ہے، چند لاکھ کے فراڈ کے ملزموں کو تو نیب حکام جیل بھجوا دیتے ہیں جبکہ اربوں روپے کی بدعنوانی کے ملزم آزاد گھوم رہے ہیںعدالت نے کیس میں میڈیا کمپنی کے مالک کا بیان ریکارڈ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت 18 جولائی تک ملتوی کردی ہے۔ سندھ کے سابق وزیراطلاعات، شرجیل میمن کی جانب سے غیر قانونی طور پر بعض اشتہاری کمپنیوں کواربوں روپے کے فنڈز کے اجرا ء سے متعلق مقدمہ کی سماعت میں چیف جسٹس نے نیب کی جانب سے تاحال ملزموں کے وارنٹ جاری نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اربوں روپے کی بدعنوانی کا معاملہ ہے، ان تک ملزموں کے وارنٹ جاری کیوں نہیں کئے گئے ہیں؟ نیب حکام ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ملزموں کو پکڑتے اور ان کے خلاف مقدمات درج کرتے ہیں، اشرافیہ کے خلاف نیب کا رویہ مختلف ہے، نیب حکام ملزموں کے ساتھ دوستانہ رویہ بند کردیں، جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے نیب نے پاکستان میں بدعنوانی کو قانونی شکل دے دی ہے ، اب نیب کو اربوں کی کرپشن کے ملزموں کے وارنٹ جاری کرنے میں بھی شرم آتی ہے، اربوں کی کرپشن کرنے والوں کو نہیں پکڑنا تو لاکھوں کی کرپشن کرنے والوں کو بھی چھوڑ دیں، نیب کہتا ہے کہ عدالت اپنی آنکھیں بند کر لے، یہ پونے 6 ارب روپے کی بدعنوانی کا معاملہ ہے، اشتہار لینے والی کمپنیوں میں سے صرف ایک کمپنی ہی کے مالک کا نام ای سی ایل میں کیوں ڈالا گیا ہے ؟ عدالت نے اشتہاری کمپنی کے مالک کو نیب کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ملزم کل صبح 10 بجے نیب تفتیشی ٹیم کراچی کے سامنے پیش ہوں، ملزم کے وکیل نے کہا کہ نیب کو حکم دیں کہ میرے موکل کو گرفتارنہ کرے جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئے کہ نیب ویسے ہی ملزموں گرفتارنہیں کرنا چاہتا، ہمارے آرڈرکی ضرورت نہیں ہے ، پراسیکیوٹر نیب نے بتایا کہ دیگر کمپنیوں کے مالکان نے رقم رضاکارانہ طور پر واپس کرنے کا معاہدہ کیا ہے ، 289 ملین میں سے 171 ملین روپے واپس کر دیئے گئے ہیں۔