لاہور (شہزادہ خالد) وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے جے آئی ٹی کو پیشی کے دوران جو بیان دیا اس بیان کے پہلے 7پیرے خفیہ رکھے گئے ہیں ان کو پبلک نہیں کیا گیا۔ 8ویں پیرے کے مطابق شہباز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ 1980ء سے قبل ان کے والد میاں شریف کی جانب سے وسط ایشیا میں لگائی جانے والی پہلی اور واحد فیکٹری گلف سٹیل ہے۔ اس کے بعد جب ہمیں سعودی عرب جلا وطن کر دیا گیا اس وقت عزیزیہ مل لگائی گئی۔ میرے والد نے گلف سٹیل قطری شاہی خاندان کو بیچ کر ایک اور فیکٹری لگائی۔ انہوں نے یہ بیان اپنے والد میاں شریف کے حوالے سے دیا کہ یہ بات انہوں نے بتائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک اس فروخت کی منی ٹریل کا تعلق ہے اس کا ان کی ذات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس خرید و فروخت کی تمام تر ذمہ داری طارق شفیع پر تھی وہ اس بارے میں بہتر بتا سکتے ہیں 9ویں پیرے کے مطابق شہباز شریف نے جے آئی ٹی کو اپنے بیان میں کہا کہ انہیں قطری خاندان سے کسی لین دین کا علم نہیں انہوں نے پہلی دفعہ شہزادہ حمد بن جاسم سے 2010ء میں ملاقات کی تھی۔ رپورٹ کا 10واں پیرا بھی خفیہ رکھا گیا ہے اور 13پیرا بھی خفیہ ہے جسے پبلک نہیں کیا گیا۔ 11ویں پیرے میں شہباز شریف نے کہا کہ حدیبیہ ملز کے بارے میں وہ کوئی جواب نہیں دینگے کیونکہ اس بارے میں ایف آئی اے اور نیب پہلے ہی ہائی کورٹ کے حکم پر تحقیقات بند کر چکے ہیں اور یہ کیس مکمل طور پر کلوز ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ کے 20اپریل 2017ء کے حکم کے مطابق میں عملدرآمد کر چکا ہوں اور اب جے آئی ٹی اس بارے میں تفتیش کی مجاز نہیں‘ 12ویں پیرے میں شہباز شریف نے کہا کہ عزیزیہ سٹیل مل ہماری جبری جلاوطنی کے بعد قائم کی گئی جس میں میاں نواز شریف‘ عباس شریف‘ میاں شریف‘ حسین نواز اور میں اپنی جلاوطنی تک قید رہے۔ اس دوران پاکستان میں سوائے چودھری شوگر ملز کے سارا کاروبار ٹھپ تھا۔ چودھری شوگر ملز کو میرا بیٹا حمزہ چلا رہا تھا۔ شہباز شریف نے کہا کہ 2001ء میں انہیں کینسر ہو گیا اور وہ امریکہ علاج کیلئے چلے گئے مل میں تین پارٹنر تھے۔ حسین نواز‘ میری بیٹی رابعہ اور میرا بھائی عباس شریف تینوں بھائیوں نے فیصلہ کیا کہ ملز کو بیچ دیا جائے تو ان کے والد میاں شریف نے کہا کہ مل فروخت کرنے کی صورت میں فروخت کا عمل حسین نواز کریگا لیکن حسین نواز نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ وہ عزیزیہ مل بیچنے کے حق میں نہیں ہیں‘ میں چونکہ امریکہ میں تھا اپنے علاج کے سلسلے میں‘ اس معاملے سے لاتعلق تھا۔ علاوہ ازیں جے آئی ٹی نے تحقیقات کے دوران وزیر اعظم محمد نواز شریف کے چچا زاد بھائی حاجی طارق شفیع کے متحدہ عرب امارات میں ڈیفالٹر ہونے کے بارے میں یو اے ای کی وزارت قانون سے استفسار کیا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق وزارت قانون نے اپنے جواب میں کہا کہ طارق شفیع بی سی سی اے متحدہ عرب امارات کا نادہندہ ہے اور اس کے خلاف عدالت نے مقدمہ نمبر 12/94میں حکم جاری کر رکھا ہے کہ وہ ساڑھے 9ملین درہم جو اس کی طرف واجب ادا ہیں جمع کرائے اور جب تک پوری رقم جمع نہیں ہو جاتی اس وقت تک 9فیصد کے حساب سے جرمانہ بھی دینا ہو گا۔ عدالت نے مزید حکم دیا کہ طارق شفیع مقدمہ کے اخراجات کی مد میں 500درہم بھی ادا کریگا۔ عدالت نے یہ فیصلہ 15اگست 2013ء میں سنایا اور یو اے ای کی وزارت قانون نے جے آئی ٹی کو 28جون 2017ء کو لکھے گئے خط میں تفصیل بیان کی۔ مزید برآں جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق قطری شہزادے حمد بن جاسم نے پاکستانی قوانین کے دائرہ اختیار کو ماننے سے صاف انکار کیا اور جے آئی کے ہر سمن کے جواب میں قطر آکر بیان لینے کا کہا قطری شہزادے نے جے آئی ٹی کے چوتھے سمن کے جواب میں لکھا کہ انہیں سوالنامہ بھیج دیا جائے یا دوحہ آکر ملاقات کر لی جائے اور ملاقات کرنے کا وقت پہلے بتا دیا جائے قطری شہزادے نے 11 جون 2017ء کو خط میں لکھا کہ میں پاکستان نہیں آ سکتا مجھے دوحہ آکر مل لیا جائے میں معلومات دینے کیلئے تعاون پر تیار ہوں 26 جون کو لکھے گئے خط جو 3 جولائی کو جے آئی ٹی کو موصول ہوا جس میں قطری شہزادے نے کہا کہ شرائط طے کیج ائیں اور بعد میں ملاقات کی جائے جے آئی کے ممبران واجد ضیائ، عامر عزیز، بریگیڈیئر (ر) نعمان سید، بریگیڈیئر کامران خورشید بلال رسول اور عرفان نعیم منگی نے فیصلہ میں کہا کہ طارق شفیع نے 12 ملین درہم قطری شہزادے کے والد کو کبھی نہیں دیئے اور مزید تحقیقات کی ضرورت ہی نہیں کہ ان کا کوئی قطری خاندان سے لین دین تھا۔
اسلام آباد (جاوید صدیق) جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف جب پندرہ جون کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تو ان سے قطری خاندان اور ان کے والد کے درمیانی مشترکہ سرمایہ کاری کے بارے میں یہ استفسار کیا گیا کہ انہوں نے قطری خاندان کی سرمایہ کاری کے بارے میں اپنی تقریروں میں کوئی ذکر نہیں کیا تو نواز شریف نے جواب دیا کہ اس وقت میں نے تقریروں میں کہا تھا کہ مناسب وقت پر تفصیلات بتاؤں گا۔ جے آئی ٹی نے رپورٹ میں کہا ہے کہ جب وزیراعظم نوازشریف سے لندن جائیداد سے متعلق بین الاقوامی میڈیا میں دئیے گئے انٹرویوز کے بارے میں استفسار کیا گیا اور پوچھا گیا کہ 1990 میں دئیے گئے انٹرویو میں انہوں نے قطری خاندان کی سرمایہ کاری کے بارے میں حوالہ کیوں نہیں دیا تو وزیراعظم نے جواب دیا کہ جس انٹرویوز کا آپ حوالہ دے رہے ہیں ان کے پیچھے ایک پوری کہانی ہے۔ میں اس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔ جہاں تک گارڈین اخبار کی اس رپورٹ کا تعلق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لندن کے اپارٹمنٹس نوئے کی دہائی میں حسن نواز اور حسین نواز کے لیے خریدے گئے اس بارے میں بھی اتنا کہوں گاکہ بعض اوقات بات کرنے والے کو پورا علم نہیں ہوتا۔
شہباز شریف نے قطری شاہی خاندان کیساتھ لین دین سے لاعلمی کا اظہارکیا:جے آئی ٹی
Jul 14, 2017