پاکستان کی نہری نظام کا ”دل“ کالا باغ ڈیم

پیغمبرﷺ نے فرمایا: جان لو جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے۔ اگر وہ ٹھیک ہے تو پورا جسم ٹھیک رہتا ہے۔ اگر اس میں خرابی آئے تو پورے جسم میں خرابی آتی ہے۔ جان لو کہ وہ”دل“ ہے۔ انسان کے دل سے شریانیں نکلتی ہیں اور پورے جسم میں پہنچ جاتی ہیں۔ ان میں دل کے ذریعے خون گردش کرتا ہے اور انسان توانا رہتا ہے۔ اسی طرح دریاﺅں سے انہار نکلتی ہیں جو پورے ملک میں زراعت کیلئے آب رسانی کرتی ہیں مگر اس تمام نظام کو ہم آہنگی سے چالو رکھنے کیلئے دل کی مانند قوت چاہئے وہ دل کالا باغ ڈیم ہے۔ بے شک منگلا ڈیم تربیلا ڈیم، مجوزہ بھاشا ڈیم اور مہمند ہائیڈرو پاور ڈیم ہوں مگر کالا باغ ڈیم نہیں تو پاکستان کی نہری نظام میں خلل پڑا رہے گا۔ بڑا منگلا ڈیم پوری استطاعت کو پانی سے بھرنے کیلئے کالا باغ ڈیم کا محتاج ہے۔ کالا باغ ڈیم نہیں تو منگلا ڈیمز بھی آدھا بھرا جا سکتا ہے۔ تربیلا ڈیم اور مجوزہ بھاشا ڈیم فقط پانی ذخیرہ کی جھلیں ہیں ان کا ہائیڈرو پاور بھی کالا باغ ڈیم کی غیر موجودگی میں پوری استطاعت کی بجلی کی پیداوار نہیں دے سکتے، جبکہ کالا باغ ڈیم پانی کا ذخیرہ پن بجلی کی پیداوار کے علاوہ اضافی پانی کو ریگولیٹ کرکے تمام انہار اور دریاﺅں میں برابر کا پانی پہنچانے کو یقینی بنانے کا ڈیم ہے۔ یعنی دیگر تمام ڈیموں سے مختلف ہے اور کالا باغ ڈیم کا کوئی متبادل نہیں۔
انڈیا نے پہلی اپریل1948ءکو دریائے ستلج پر بنے مادھو پور ہیڈ ورکس سے نکلنے والی انہار دیپالپور کینال اور سنٹرل باری دو آب کینال جن کا 80فیصد پانی پاکستان استعمال کرتا تھا، وہ بند کردیں تو کپاس کی بوائی رک گئی اور کاشتکار ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوئے۔ انڈیا اور پاکستان کے باہمی مذاکرات کے نتیجے میں 30اپریل کو انہار میں پانی کھول دیا تو کپاس کی بوائی زور شور سے ہوئی۔ کپاس کی فصل بہت اچھی ہوئی‘ 1948ءمیں پاکستان نے اچھا زر مبادلہ کمایا اور معیشت کو سہارا ملا۔ 4مئی کو دہلی میں مذاکرات کے نتیجے میں حتمی معاہدہ کرنے تک مفاہمتی دستاویز پر دستخط ہوئے جس کے تحت پاکستان کو پانی دینے کا میکنزم بنایا گیا۔ دریاﺅں کے پانیوں کے متعلق پاکستان نے انڈیا پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا اور قائداعظم کے حکم پر پاکستان کے ماہر انجینئروں نے لنک کینالز کا مربوط منصوبہ بنایا۔ کچھ لنک کینال انگریز کے دور میں بنی ہوئی تھیں اور باقی پاکستان نے بنائیں۔ آخری لنک کینال چشمہ جہلم لنک کینال 1971ءمیں مکمل ہوئی۔ طے تھا کہ تربیلا ڈیم مکمل ہو تو کالاباغ ڈیم بنے گا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے کالا باغ ڈیم کے تیار منصوبہ فنڈز مہیا کرنے کیلئے ایک خط عالمی بنک کو ارسال کیا مگر ان کو وقت نہیں ملا۔ جنرل ضیاءالحق نے انکی حکومت ختم کر دی۔1983-84ءمیں جنرل ضیاءالحق نے کالا باغ ڈیم پر تعمیراتی کام کا آغاز کیا مگر بوجوہ یہ کام بھی رک گیا جو آج تک رکا ہوا ہے۔
پاکستان میں دانشور اور اکثر عوام کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں دلچسپی رکھتے ہیں اسکی خاص وجہ معیشت میں بہتری اور توانائی کا سستا ترین وسیلہ ہونے کے علاوہ ڈیم کی Reliability ہے۔ ڈیم کا وقوع ایسے مقام پر ہے جس کے اوپر بہاﺅ پر بارانی پانی کا سب سے زیادہ آبگیرہ تک مغرب سے کوہ ہندو کش اور اسکی وادیوں کا ایک لاکھ دس ہزار پانچ سو مربع میل اور مشرق سے راولپنڈی وادی اور سواں وادی کا 45000مربع میل کا بارانی پانی اٹک سے لیکر کالا باغ ڈیم تک دریائے سندھ میں گرتا ہے۔ اوپر سے آنے والا گلیشیئر اور برف کے پگھلاﺅ کا پانی اس کے علاوہ ہے۔ پاکستان کا جغرافیہ کچھ اس طرح کا ہے کہ شمال میں بلند پہاڑ گلیشیئر کی صورت میں برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ انکے بعد کم بلند پہاڑ ہیں جو سردیوں میں برف سے ڈھکے رہتے ہیں اور گرمیوں میں برف پگھلتی رہتی ہے۔ پہاڑوں میں بھی وادیاں ہیں اور پہاڑوں سے جنوب میں تربیلا ڈیم کے قریب سے میدانی علاقہ ہے۔ بارشیں پہاڑی علاقہ میں ہوتی ہیں مگر کثیر مقدار میں بارشیں میدانی علاقہ میں ہوتی۔ یہ بارشیں خطر ناک حد تک مون سون کے موسم یعنی جولائی تا ستمبر میں ہوتی ہیں اور سیلاب کا سبب بنتی ہیں۔ پاکستان میں سالانہ اوسط 180ایم اے ایف ملین ایکڑ فٹ بارش ہوتی ہے جس سے 25ایم اے ایف ملین ایکڑ فٹ کا کچھ زمین میں جذب ہوتا ہے کچھ بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے۔ باقی 90ایم اے ایف ملین ایکڑ فٹ دریاﺅں کے بہاﺅ میں اور زرعی زمینوں اور دیگر زمینوں پر چلا جاتا ہے۔
دریائے جہلم کے بہاﺅ میں منگلا ڈیم اور دریائے سندھ میں تربیلا ڈیم سے اوپر بہاﺅ میں میدانی علاقہ تھوڑا ہے مون سون کی بارشیں ان ڈیموں سے اوپر کسی موسم میں برستی ہیں تو کبھی نہیں بھی برستیں جیسا کہ اب کے برس ابھی تک وہاں بارشیں نہیں برسیں اور منگلا ڈیم ڈیڈ لیول کے قریب پہنچا ہے جبکہ تربیلا ڈیم ڈیڈ لیول پر ہے۔ مجوزہ بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم بھی تربیلا ڈیم کی طرح ہونگے۔ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے گلیشیئر پگھلنے میں دیر ہوئی ہے اور دریاﺅں میں پانی کی کمی ہے۔ یاد رہے کہ مجوزہ بھاشا ڈیم، تربیلا ڈیم اور مجوزہ مہمند ڈیم میں بارانی پانی کم آتا ہے۔ باقی تمام پانی گلیشیئر اور برف کے پگھلاﺅ کا پانی راواں رہتا ہے تربیلا ڈیم سے نیچے بہاﺅ میں مون سون کی بارشوں کے پانی سیلاب کا سبب بنتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کی بدولت بھاشا ڈیم، تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم کی افادیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کچھ لوگ دریائے سندھ کے بہاﺅ سے باہر وادی سواں میں ڈیم کی تعمیر کی تجویز دیتے ہیں۔ ایسا ڈیم بہت مہنگا بنتا ہے اور اس کو تربیلا ڈیم سے نہر بنا کر بھرا جائےگا۔ بارانی پانی پھر بھی بے لگام سیلاب برپا کرتا ہوا سمندر میں چلا جائیگا۔ پاکستان کے تمام دانشوروں اور آبی ماہر انجینئروں سے میری درخواست ہے کہ ثابت کریں اور تجویز دیں کہ کالا باغ ڈیم کے نہ ہونے کی صورت میں مون سون کی بارشوں کے پانی کو کیسے ذخیرہ کریں اور سیلاب سے کیسے بچیں اور قیمتی پانی کو سمندر برد ہونے سے بچا کر کیسے استعمال کریں۔ ہمارے سیاسی رہنماﺅں کو عوام کی بہبود اور ملک کی بقاءاور خوشحالی کو یقینی بنانے کیلئے ذاتی انا اور سیاسی مفادات سے بالا ہو کر کالا باغ ڈیم کی مخالفت ترک کرنی چاہئے کالا باغ ڈیم پاکستان کی ترقی عوام کی خوشحالی کی ضامن اور نہری نظام کا دل ہے اسے اولیت دیکر تعمیر کرنا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن