اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ ایجنسیاں) نگران وزیر داخلہ محمد اعظم خان نے ایوان بالا کو بتایا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کو سیکورٹی خدشات ہیں تاہم ہارون بلور کو سیکورٹی کا کوئی خطرہ نہیں تھا، امن و امان صوبائی معاملہ ہے جس کیلئے نگران حکومت صوبوں کو ہر ممکن تعاون فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے رضا ربانی اور دیگر سینیٹروں کی جانب سے الیکشن مہم کے دوران سیکورٹی کے مسائل، سیاست دانوں کی شہادت، اور باقیوں کی جاں کو لاحق خطرات کے بارے میںاعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اپنی رپورٹ ایوان مین پیش کی اور کہا 10 جولائی کو اے این پی کے ایک امیدوار پر خودکش حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں ہارون بلور سمیت بائیس افراد شہید جبکہ ان کے گن مین سمیت پچھترافراد زخمی ہوئے۔ ہم نے صوبائی حکومت سے سیکورٹی انتظامات کے بارے میں تفصیلات مانگی ہیں۔ اے این پی کی جانب سے جلسہ کی اجازت نہیں لی گئی تھی اور نہ ہی خود سیکورٹی کے کوئی انتظامات کئے گئے تھے۔ خفیہ اداروں کو مختلف گروپوں سے تھریٹ مل رہے ہیں جس کو نیکٹا میں شیئر کر رہے ہیں۔ ارکان کی عدم موجودگی کے باعث گزشتہ روز پشاور میں ایپکس کمیٹی کا اجلاس نہیں ہو سکا۔ امن و امان کا قیام صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ نگران وفاقی حکومت مائیکرو مینجمنٹ نہیں کر سکتی۔ نگران حکومت کا کام الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت سے تعاون کرنا ہے۔ اکرم درانی پر حملہ کے حوالے سے چیف سیکرٹری خیبر پی کے سے تفصیلی رپورٹ طلب کی گئی ہے۔ گزشتہ روز وزراءکی عدم موجودگی کی وجہ سے ایوان بالا کا وقفہ سوالات معطل کرنا پڑا۔ وقفہ سوالات کے دوران سوال کا جواب دینے کیلئے وزراءموجود نہیں تھے جس پر سینیٹر حاصل بزنجو اور سینیٹر سعدیہ عباسی نے احتجاج کرتے ہوئے کہا نگران حکومت کو ایوان بالا کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ جب وزیر اطلاعات علی ظفر ایوان میں پہنچے تو چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے کہا پورا ایوان منتظرہوتا ہے، وزراءکو وقت پر آنا چاہئے۔ سینٹ میں اندیشہ ظاہر کیا گیا ایک سیاسی جماعت کے خلاف یکطرفہ کارروائی اور ایک دوسری مخصوص جماعت کے حق میں پارٹی امیدواروں کو دست بردار کروانے اور دیگر اقدامات سے الیکشن کے نتائج متنازع ہو جائیں گے۔ الیکشن کمیشن وضاحت کرے کہ فوج کو پولنگ بوتھ کے اندر داخلہ کی کیوں اجازت دی گئی؟ امیدواروں پر دباﺅ ہے، وزیر دفاع بھی ایوان میں آ کر بیان دیں۔ الیکشن میں مداخلت کی جا رہی ہے۔ الیکشن کے انعقاد تک سینیٹ کا اجلاس جاری رکھا جائے۔ ایوان بالا نے سیکورٹی کے بارے میں نگران وزیر داخلہ اعظم خان کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے ہارون بلور پر حملے سے متعلق تفصیلی معلومات بھی مانگ لیں اور مطالبہ کیا انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور امیدواروں کو مکمل سیکورٹی فراہم کرنے کےلئے ٹھوس اور فوری اقدامات کئے جائیں جبکہ نگران حکومت کی کارکردگی پر شکوک کا اظہار کیا۔ سابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہا نگران وزیر داخلہ سے زیادہ میڈیا کے پاس ہارون بلور کی شہادت سے متعلق معلومات ہیں۔ بتایا جائے سیکورٹی کےلئے کیا اقدامات کئے گئے۔ مسلم لیگ(ن) کا نام لئے بغیر انہوں نے کہا ایک جماعت کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، کنٹینر لگا کر لاہور کو بند کردیا گیا۔ ایوان کا اجلاس انتخابات تک چلنا چاہئے اور یہ گزشتہ انتخابات کی روایت بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کا گزشتہ دہائیوں سے احتساب ہو رہا ہے۔ اس الیکشن میں جس طرح جانبداری سے اور ایک مخصوص پارٹی کو آگے لایا جارہا ہے اس سے الیکشن نہ صرف مشکوک ہونگے بلکہ متنازع ہو جائینگے۔ نیب کے چشمے میں صرف مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ہے۔ یہ تاثر نہ دیا جائے اس ملک کے اندر جو کچھ ہورہا وہ ایک خاص پارٹی یا شخص کے کہنے پر ہورہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے فوج کو پولنگ اسٹیشن کے اندر طلب کیا ہے بتایا جائے ان کو کیا اختیارات دیئے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن ایوان میں آکر وضاحت کرے اسکے ٹی او آرز کیا ہوں گے۔ امیدواروں کو پارٹی سے دستبردار کون کرا رہا ہے اور کون ان پر دباﺅ ڈال رہا ہے؟ جو لوٹے وفاداریاں تبدیل کرکے دوسری پارٹی میں چلے گئے وہ صاف ہوگئے ہیں۔ ان لوگوں کا احتساب کون کریگا۔ قائد حزب اختلاف سینیٹر شیری رحمان نے کہا پشاور میں حملہ کے دوران اکیس لوگ شہید ہوئے، یہ سنجیدہ معاملہ ہے، نگران حکومت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ ہمارا مسلم لیگ (ن) سے سیاسی اختلاف ہے لیکن لندن میں ان کے اپارٹمنٹس کے باہر مظاہرے کئے جا رہے ہیں۔ سیاست کو آلودہ کرنے میں مسلم لیگ (ن) کا بڑا ہاتھ ہے، ہمیں سیاست میں صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ معاملہ بہت سنگین ہے ہمارے بہت سے تحفظات ہیں جن کا حل فوری ہونا بہت ضروری ہے ورنہ پورا الیکشن ایسی صورت میں متنازع ہوجائے گا، ہماری لیڈرشپ پر الزام تراشی کر کے انہیں الیکشن مہم میں بدنام کرکے انتخابات پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ میڈیا پر ان دیکھی سنسرشپ لگی ہوئی ہے، ایسے اقدامات ہم نے ضیاءالحق کے مارشل لاءمیں دیکھے تھے یا اب دیکھ رہی ہوں۔ مشتاق احمد خان نے کہا ہارون بلور پر حملہ دہشت گردی کا بدترین واقعہ ہے۔ نگران وفاقی اور صوبائی حکومتیں ناکام ہو چکی ہیں۔ سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ لاشوں کی سیاست نہ کریں گرنے دیں لاشیں۔ کب تک عوام کی بات بند کرکے رکھیں گے۔ مولا بخش چانڈیو نے کہا الیکشن اور جمہوریت کو مشکوک بنانا پاکستان کے مستقبل کو مشکوک بنانے کے مترادف ہے۔ نواز دور میں نے کہا تھا ایک لاڈلہ کھیلنے کو اسمبلی مانگ رہا تھاجس کا نام چوہدری نثار ہے، آج ایک لاڈلہ کھیلنے کو پورا پاکستان مانگ رہا ہے جس کا نام عمران خان ہے۔ عثمان کاکڑ نے کہا عوام اور پارلیمنٹ کی اہمیت کم کی جارہی ہے، یہ قابل قبول نہیں۔ الیکشن میں مداخلت ہورہی ہے۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہم جیتتے جارہے ہیں، اگلی حکومت بنائیں گے۔ آصف زرداری کا نام ای سی ایل پر ڈالا گیا یہ سب غلط ہے۔ میر حاصل بزنجو نے کہا انتخابات میں دھاندلی کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا باپ بیٹی مجرم، بیٹے اشتہاری اور داماد قیدی ہے، نواسہ اور پوتا لندن میں گرفتار ہیں، اس خاندان کا استقبال کرنے والوں کو کیا کہیں گے؟ سینٹ میں متعدد امور پر رپورٹیں پیش کرنے کی تاریخوں میں توسیع کر دی گئی ہے جبکہ روز ایوان بالا نے دو الگ الگ امور پر خصوصی کمیٹیوں کی تشکیل کیلئے چیئرمین سینٹ کو مجاز قرار دینے کی تحاریک متفقہ طور پر منظور کر لیں۔ شیری رحمان نے تحریک پیش کی ایوان تمباکو کے شعبے میں ٹیکس اکٹھا کرنے میں کمی کی وجوہات پر مبنی خصوصی آڈٹ رپورٹ جائزے اور تشکیل دینے سی پیک پر خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کی غرض سے چیئرمین سینیٹ کو مجاز قرار دے۔ ایوان بالا نے اتفاق رائے سے تحریک کی منظوری دے دی۔ آئی این پی کے مطابق نگران وزیر اطلاعات و نشریات بیرسٹر سید علی ظفر نے میڈیا بلیک آﺅٹ پر مستعفی ہونے سے انکار کر تے ہوئے کہا کسی بھی چینل پر پابندی کے حوالے سے کوئی ہدایات جاری نہیں کیں،پیمرا کے نئے قوانین کے تحت حکومت پیمرا کو کوئی ہدایات جاری نہیں کر سکتی،پیمراخودمختار ہے،نگران حکومت کسی کے ساتھ نہیں بلکہ غیر جانبدار ہے۔ عام انتخابات 2018ءکے آزادانہ، شفاف اور پرامن انعقاد کے حوالے سے ارکان کی تشویش سے متعلق حکومتی موقف پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا میں آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتا ہوں۔ ہم کسی کے ساتھ نہیں بلکہ نیوٹرل ہیں۔ قبل ازیں نکتہ اعتراض پر شیری رحمان نے کہا میڈیا کا بلیک آﺅٹ کیا جا رہا ہے، اس سے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھیں گے۔ میڈیا بلیک آﺅٹ پر نگران حکومت جوابدہ ہے۔ ماضی میں جب وہ وزیر اطلاعات تھیں تو ایسے معاملات منظر عام پر آنے پر وزارت اطلاعات سے مستعفی ہو گئی تھیں، وزیر اطلاعات اس چیز پر قابو نہیں پا سکتے تو مستعفی ہو جائیں۔ صباح نیوز کے مطابق رضا ربانی نے اسلام آباد میں روس، چین، ایران، پاکستان خفیہ اداروں کے سربراہان کے مشترکہ اجلاس کا معاملہ ایوان بالا میں اٹھاتے ہوئے اجلاس کے بارے میں دفتر خارجہ کی لاعلمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ایوان بالا کو اس بارے میں اعتماد میں لیا جائے یہ اجلاس پاکستان کی سرزمین پر کیوں ہوا، کس نے مدعو کیا، اس کے کیا مقاصد تھے، ہماری سرزمین پر یہ اجلاس ہوا اور دفتر خارجہ اس سے لاعلم ہے۔ علاوہ ازیں مالیاتی ٹاسک فورس اور جائزہ گروپ کے حالیہ اجلاسوں کی تفصیلات نگران وزیر خزانہ نے سینٹ میں پیش کر دیں اور ایوان بالا کو آگاہ کیا پاکستان کو بلیک لسٹ میں 2012ءمیں ڈالا گیا تھا 2015ءمیں پاکستان کا نام اس لسٹ سے نکال دیا گیا۔ پاکستان کو دوبارہ بلیک لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔ گرے لسٹ میں ہے اور تین ماہ کے بعد ستمبر 2018ءمیں دوبارہ اس بات کا جائزہ لیا جائے گا۔ اپوزیشن لیڈر شیری رحمن کی طرف سے پاکستان کو مالیاتی ٹاسک فورس کی گرے فہرست میں پاکستان کو شامل کرنے کی جانب توجہ مبذول کرانے کا نوٹس پیش کیا گیا تھا۔ اپوزیشن لیڈر کا بیان مکمل ہوا تو بعض سینیٹرز میاں رضا ربانی اس معاملے پر بات کرنا چاہتے تھے۔ چیئرمین سینٹ نے رضا ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جو محرک نہیں انہیں فلور نہیں دے سکتا، یہی قواعد ہیں آپ کے دور میں یہ قواعد بنے آپ بھی سختی کرتے رہے اور میں بھی اس پر عملدرآمد کروں گا۔ ارکان کے مطالبے پر چیئرمین سینیٹ نے سانحہ پشاور اور بنوں میں سابق وفاقی وزیر کے قافلے پر حملے سے متعلق پیر کو تفصیلی رپورٹ طلب کر لی اور نگران وزیر داخلہ کو واضح طور پر کہا کہ ان واقعات کی تمام تر تفصیلات سے سینٹ کو آگاہ کیا جائے۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے مسلم لیگ ن کے خلاف کریک ڈا¶ن کی مذمت کی گئی اور گرفتار کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا اور واضح کیا مسلم لیگ ن کو مکافات عمل کا سامنا ہے۔ یہ حالات اس کے اپنے پیدا کردہ ہیں، مسلم لیگ ن اپنے دور میں پارلیمنٹ کو اہمیت دیتی تو اس کو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ شیری رحمن نے کہا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن ہوں جمہوری دور ہے پکڑ دھکڑ نہیں ہونی چاہئے۔
سینٹ/ وزیر داخلہ