حافظ محمد عمران
خبر یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے اینڈی رچرڈز کو پاکستان وویمنز کرکٹ ٹیم کا اسسٹنٹ کوچ و بیٹنگ کنسلٹنٹ مقرر کر دیا ہے۔ اس سے پہلے وویمنز ٹیم کی کوچنگ کی ذمہ داری بھی ایک غیر ملکی کے ذمے ہے ایک ایک کر کے کوچنگ سٹاف میں شامل تمام پاکستانیوں کو فارغ کیا جا رہا ہے۔ مینز ٹیم کے کوچنگ سٹاف میں بھی غیر ملکیوں کی بھرمار ہے۔ اس نئی تقرری کے کئی سنجیدہ سوالات پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ اور فیصلہ سازوں کے حوالے اٹھائے جانے ضروری ہیں۔کیا پاکستان کرکٹ کا سب سے بڑا مسئلہ اچھے کوچز کی عدم دستیابی ہے، کیا تمام مسائل کا حل غیر ملکی کوچز کے پاس ہے، ہمارے کوچز میں کس چیز کی کمی ہے اور اس کمی یا خامی کو دور کرنے کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ نے کیا اقدامات کیے ہیں، غیر ملکی کوچنگ سٹاف کی طرف سے مختصر وقت میں پاکستان کی مینز/ وویمنز ٹیم کی کوچنگ کے فرائض نبھانے سے ملکی کرکٹ کو مستقبل کیا فائدہ ہو گا، ہم اپنے کوچز کو اہمیت، آزادی و خود مختاری کیوں نہیں دیتے، اگر اپنے کوچز میں کوئی کمی ہے تو انہیں غیر ملکی کوچنگ سٹاف کے ساتھ کام کرنیکا موقع کیوں فراہم نہیں کیا جاتا،پاکستان کرکٹ بورڈ کے زیر انتظام چلنے والے سولہ ریجنز مین مقامی کوچز کام کرتے ہیں اگر وہ اس اہل نہیں ہیں تو پھر ان پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کیوں کیے جاتے ہیں، کیا ہمیں اپنی علاقائی ٹیموں کے لیے بھی کوچز باہر سے منگوانا پڑیں گے، اگر کوچنگ سٹاف باہر سے منگوایا جا سکتا ہے تو پھر انتظامی عہدوں پر بھی بیرون ملک سے ماہر افراد کو بلا کر اعلی عہدوں پر ذمہ داری کیوں نہیں دی جاتی؟؟؟
غیر ملکی کوچز کو بلانا اچھا فیصلہ ہے، تجربے کی منتقلی، علم میں اضافہ، جدید طریقوں سے آگاہی اور شعور میں اضافے کے لیے تو یہ ٹھیک ہے لیکن سب کچھ انکے حوالے کر دینا، اپنے لوگوں کو اس عمل سے مکمل طور پر دور کر دینا یہ کیسی قومی خدمت ہے۔ کیا یہ وقت گذاری نہیں، اپنے لوگوں پر عدم اعتماد اور غیر ملکیوں پر خزانے کے منہ کھولنا انکی ہرجائز ناجائز بات ماننا انہیں سیاہ و سفید کا مالک بنا دینا یہ کہاں کا انصاف ہے، اپنے لوگوں کو اختیارات اور کام کی آزادی نہ دینا اور باہر سے بلائے جانیوالوں کے ناز نخرے اٹھانا کیا اپنے ماہر اور اہل افراد کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے؟؟
پاکستان ہاکی فیڈریشن نے غیر ملکی کوچ رولینٹ آلٹمینز کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں انکے ساتھ محمد ثقلین اور ریحان بٹ کو لگایا گیا ہے تاکہ وہ جدید کوچنگ کے طریقے سیکھیں اور اس شعبے میں پاکستان ہاکی کے کام آ سکیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے نظام میں سولہ ریجنز کے کوچز کے لیے آگے بڑھنے کے لیے کیا کشش ہے، انکے پاس ترقی کا کیا ذریعہ ہے؟؟؟ اگر وہ کوچنگ کے اہل نہیں ہیں تو پاکستان کے نوعمر و نوجوان کرکٹرز کو انکے حوالے کیوں کیا جاتا ہے۔ نچلی سطح پر کوچنگ کا عمل دخل اور اسکی اہمیت زیادہ ہے اگر یہ کوچ اس سطح پر کوچنگ کر سکتے ہیں تو پھر انہیں اوپر آنے کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا اور اگر وہ اتنے باصلاحیت نہیں ہیں تو ملکی کرکٹ کا مستقبل انکے حوالے کر کے پاکستان کرکٹ کی کونسی خدمت کی جا رہی ہے؟؟؟
پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے تنخواہ دار کوچز کے مستقبل کا فیصلہ کرے جو خزانے پر بوجھ ہیں انہیں گھر بھیجا جائے اور جو آگے بڑھنا چاہتے ہیں انہیں راستہ دیا جائے۔ اگر ہمارے کوچز انڈر سکسٹین اور انڈر نائینٹین کی کوچنگ کر سکتے ہیں تو پھر اسی سطح سے قومیبٹیم تک آنیوالوں کی کوچنگ کیسے مشکل ہے۔ رہی بات غیر ملکیوں کے باصلاحیت ہونے کی تو پھر ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز، ڈائریکٹر انٹرنیشنل و ڈومیسٹک، ڈائریکٹر مارکیٹنگ بھی باہر سے بلا لیا جائے۔ ڈائریکٹر میڈیا کے لیے سی این این،بی بی سی یا کسی اور بڑے ادارے سے تعلق رکھنے والے ماہر شخص کی خدمات حاصل کرنے میں کیا حرج ہے۔ جب کوچز باہر سے بلائے جا سکتےبہیں تو چیف آپریٹنگ آفیسر بھی باہر سے بلائیں تاکہ کھیل کو درپیش حقیقی مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہوں۔ اگر چئیرمین بھی غیر ملکی بلا لیا جائے تو پاکستان کرکٹ بورڈ میں سیاسی تقرریوں کی بحث بھی مختصر وقت کے لیے رک سکتی ہے۔ نظام میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے بجائے ان سے پردہ پوشی کیا اچھے منتظم کی نشانی ہے؟؟؟؟۔ ہم کب تک اپنا سرمایہ دوسروں پر خرچ کریں گے، کب خود کو بدلیں گے، کب اپنے لوگوں پر اعتماد کرنا سیکھیں گے، ہمارے اپنے لوگ کب چھوٹے چھوٹے مفادات سے نکل کر اعلی اور بڑے مقاصد کے حصول کے لیے کام کرنا شروع کریں گے۔ کب آخر کب؟؟؟؟؟
غیر ملکیوں پر مہربان ”پاکستان کرکٹ بورڈ“
Jul 14, 2018