جج ویڈیو سکینڈل۔ ارشدملک کی سبکدوشی‘ ان کا بیان حلفی اور سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کا آغاز
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جج ویڈیو سکینڈل پر گزشتہ روز احتساب عدالت نمبر2 کے جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روکتے ہوئے انکی خدمات وفاقی وزارت قانون کے سپرد کر دیں۔ اس سلسلہ میں ترجمان اسلام آباد ہائیکورٹ نے گزشتہ روز جاری کئے گئے اپنے اعلامیہ میں بتایا کہ جج ارشدملک کو ہٹانے کیلئے وزارت قانون و انصاف کو خط لکھ دیا گیا ہے جو قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق کی ہدایت پر رجسٹرار ہائیکورٹ نے بھجوایا ہے۔ اس مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ جج ارشدملک پر ایک ویڈیو میں متعدد الزامات عائد کئے گئے ہیں اس لئے انہیں احتساب عدالت کے جج کے عہدے سے ہٹا کر لاہور ہائیکورٹ کے پیرنٹ ڈیپارٹمنٹ میں واپس بھجوا دیا جائے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے اس امر کی تصدیق کی کہ وزارت قانون نے ارشدملک کو مبینہ ویڈیو اور انکی جاری کردہ پریس ریلیز کی بنیاد پر مزید کام کرنے سے روک دیا ہے۔ انکے بقول نیب کے قانون کے مطابق جج کو دھمکی دی جائے یا سفارش کی پیشکش کی جائے تو اسکی سزا دس سال قید ہے۔ جج کو کام سے روکنے پر انکے فیصلوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
دریں اثناء احتساب عدالت اسلام آباد سے سبکدوش ہونیوالے جج ارشدملک نے گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں بیان حلفی داخل کرایا ہے جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ اگست 2018ء میں فلیگ شپ ریفرنس اور ہل میٹل کے ریفرنسز انکی عدالت میں منتقل کئے گئے تو ان ریفرنسوں کی سماعت کے دوران انہیں کئی مواقع پر میاں نوازشریف کے سپورٹرز اور ایسوسی ایٹس کی جانب سے اپروچ کیا گیا جنہوں نے انہیں پیشکشیں بھی کیں اور دھمکیاں بھی دیں۔ ایک ایسی ہی سماجی ملاقات کے دوران مہرجیلانی اور ناصر جنجوعہ بھی شریک تھے۔ ناصر جنجوعہ انہیں ایک جانب لے گئے اور متذکرہ دونوں ریفرنسوں میں نوازشریف کی بریت کا فیصلہ صادر کرنے کا کہا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ نوازشریف نے ہی انہیں بطور جج احتساب عدالت تعینات کرنے کی سفارش کی تھی۔ اسی طرح ایک دوسرے مرحلے میں ناصر جنجوعہ نے ان سے دوبارہ رابطہ کرکے نوازشریف کے حوالے سے ایک مالی پیشکش کی اور کہا کہ میاں صاحب کو بری کرنے کے عوض آپ کا ہر دلی مطالبہ پورا کر دیا جائیگا۔ میں نے انہیں باور کرایا کہ میں ہر دو ریفرنسوں میں اپنے حلف کے مطابق فیصلوں دوں گا۔ اس موقع پر ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا کہ وہ مجھے فوری طور پر 100 ملین یورو دے سکتے ہیں جن میں سے 20 ملین یورو انکی پارکنگ میں کھڑی گاڑی کی ڈگی میں موجود ہیں۔
بیان حلفی کے مطابق اس رشوت کی پیشکش کے بعد ناصر بٹ کی طرف سے انہیں جسمانی طور پر نقصان پہنچانے اور ہراساں کرنے کی دھمکی ملی۔ اسی طرح انہیں خفیہ طور پر ریکارڈ کرائی گئی انکی ایک غیراخلاقی ویڈیو دکھا کر ان پر دبائو ڈالنے اور بلیک میل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ارشدملک نے اپنے بیان حلفی میں ناصر بٹ کو میاں نوازشریف کیلئے اپنا آڈیو (صوتی پیغام) ریکارڈ کرانے کا بھی اعتراف کیا اور یہ انکشاف بھی کیا کہ اس آڈیو کے بعد ان پر انکی غیراخلاقی ویڈیو کے حوالے سے دوبارہ دبائو ڈال کر جاتی امراء میں انکی نوازشریف سے ملاقات بھی کرائی گئی۔ انہوں نے ہل میٹل کیس میں اپنے فیصلہ کیخلاف اپیل کی تیاری میں دبائو کے تحت میاں نوازشریف کے وکلاء کی معاونت کا بھی اعتراف کیا۔ انہوں نے سعودی عرب میں عمرہ کی ادائیگی کے موقع پر ناصر بٹ کے دبائو پر حسین نواز سے ملاقات کا بھی اعتراف کیا اور کہا کہ حسین نواز نے جارحانہ اور اشتعال انگیز لہجے میں انہیں پچاس کروڑ روپے دینے اور انہیں اور انکے اہل خانہ کو برطانیہ‘ کینیڈا یا اپنی مرضی کے کسی بھی ملک میں منتقل کرنے کی پیشکش کی اور کہا کہ وہاں انکے بچوں کیلئے ملازمتیں اور منافع بخش کاروبار دستیاب ہوگا۔ اسکے بعد انہیں یہ کہہ کر مستعفی ہونے کیلئے کہا گیا کہ چونکہ انہوں نے میاں نوازشریف کو شواہد کے بغیر سزا سنائی ہے اس لئے ضمیر کی یہ خلش لے کر وہ اپنی نوکری جاری نہیں رکھ سکتے۔ تاہم انہوں نے حسین نواز کی یہ پیشکش مسترد کر دی جس کے بعد مریم نواز نے پریس کانفرنس منعقد کرکے ان پر جھوٹے الزامات عائد کئے اور دکھائے گئے مواد کو ان سے منسوب کیا۔
اس ماہ 6 جولائی کو مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف اور دوسرے پارٹی عہدیداران کے ہمراہ کی گئی پریس کانفرنس کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو اور آڈیو کے حوالے سے اتنا گند اچھل چکا ہے کہ اس میں سے اصل حقائق کی تہہ تک پہنچنا انتہائی دشوار نظر آتا ہے جبکہ اس ایشو پر ایک دوسرے کی جانب سے ہونیوالی الزام تراشی سے سیاسی فضا میں کشیدگی کا عنصر بھی بتدریج بڑھتا نظر آرہا ہے۔ اصولی طور پر تو مریم نواز کو فاضل جج کی مبینہ ویڈیو پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے بجائے یہ ویڈیو میاں نوازشریف کی زیرسماعت اپیل میں متعلقہ اپیلٹ کورٹ میں پیش کرنی چاہیے تھی تاکہ اسے بطور شہادت قبول کرنے کے بارے میں فاضل عدالت کوئی فیصلہ صادر کرتی جبکہ انصاف کی عملداری میں متذکرہ ویڈیو کے اصلی ثابت ہونے کی صورت میں میاں نوازشریف کو انکی اپیل میں فائدہ بھی پہنچ سکتا تھا تاہم مریم نواز نے اس معاملہ میں مجاز عدالت سے رجوع کرنے کے بجائے سیاسی محاذ گرمانے کا فیصلہ کیا جس میں جو موسیقی کسی دوسرے کیلئے چلائی جاتی ہے‘ ایسی ہی موسیقی دوسروں کی جانب سے سننا بھی پڑتی ہے۔ چنانچہ آج احتساب عدالت کے فاضل جج کے حوالے سے ہی دوطرفہ ریکارڈ بجتے نظر آرہے ہیں۔ دوطرفہ محاذآرائی کی فضا ہموار کرنے میں بدقسمتی سے خود فاضل جج ارشدملک نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جنہوں نے مبینہ ویڈیو اور آڈیو پر اپنا موقف اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کرنے کے بجائے پریس ریلیز جاری کردی جس کے جواب میں مسلم لیگ (ن) اور حکمران پی ٹی آئی کے اکابرین ایک دوسرے کیخلاف مورچہ بند ہوگئے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس پر اعلیٰ عدلیہ سے معاملہ کی جوڈیشل انکوائری کا تقاضا کیا اور اس کیلئے حکومت کی جانب سے ہر قسم کی معاونت کی پیشکش کی۔
چونکہ اس ایشو پر عدلیہ کی ساکھ اور وقار متاثر ہو رہا تھا اس لئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس معاملہ کا بروقت نوٹس لیا اور جج ارشدملک کو بلا کر ان سے وضاحت طلب کی۔ اعلیٰ عدالتی ذرائع کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ارشدملک کی وضاحت کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ سے بھی مشاورت کی اور اس مشاورت کی روشنی میں ہی ارشدملک کو انکے منصب سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا جس کا باضابطہ اعلان گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے ترجمان کی جانب سے کیا گیا ہے جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بھی ارشدملک کی مبینہ ویڈیو کی انکوائری کیلئے دائر ایک درخواست کی سماعت کیلئے 16 جولائی کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔ اس درخواست میں وفاقی حکومت‘ اپوزیشن لیڈر شہبازشریف‘ مریم نواز‘ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی‘ راجہ ظفرالحق اور ویڈیو کے مرکزی کردار ناصر بٹ کو فریق بنایا گیا ہے اور اس معاملہ کی انکوائری کی استدعا کی گئی ہے۔ چونکہ یہ معاملہ اب اعلیٰ عدالتی فورم پر آچکا ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی سفارش پر جج ارشدملک کو انکے منصب سے فارغ بھی کردیا گیا ہے اس لئے اب اس ایشو پر انصاف کے تقاضوں کے تحت سیاسی محاذ آرائی گرمائے رکھنے کا سلسلہ تمام فریقین کو ترک کردینا چاہیے اور اس ایشو پر جس کا جو بھی موقف ہے وہ سپریم کورٹ کے متعلقہ بنچ کے روبرو پیش کیا جائے۔ احتساب عدالت کے جج ارشدملک پہلے ہی اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنا بیان حلفی داخل کراچکے ہیں جس کے مندرجات پر مزید سوالات بھی اٹھ رہے ہیں اس لئے اس سارے معاملہ کا جائزہ لینے اور اصل حقائق کی تہہ تک پہنچنے کیلئے عدالت عالیہ اسلام آباد اور عدالت عظمیٰ کی معاونت کی ضرورت ہے اور وہی اس ایشو پر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے مجاز فورم ہیں۔ اگر مریم نواز کے پاس مزید کوئی ثبوت ہیں جس کا انہوں نے پریس کانفرنس میں عندیہ بھی دیا تھا تو انہیں یہ ثبوت اب عدالت عظمیٰ کے روبرو ہی پیش کرنے چاہئیں اور اسی طرح فاضل جج ارشدملک کو مزید جو کچھ کہنا ہے وہ عدالت عظمیٰ کے روبرو پیش ہو کر ہی اس کا اظہار کریں۔ حکومتی اکابرین کو بھی اب اس ایشو پر اپوزیشن کو رگیدنے اور سیاسی محاذآرائی کو فروغ دینے کے بجائے عدالتی فیصلہ کا انتظار کرنا چاہیے اور کیس کی کارروائی مکمل ہونے تک کسی قسم کے تبصرے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ کسی زیرسماعت کیس پر تبصرہ کرنا بھی عدالتی کارروائی میں مداخلت کے زمرے میں آتا ہے۔
چونکہ حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام فریقین کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ سے معاملہ کا نوٹس لینے اور جوڈیشل انکوائری کرانے کا تقاضا کیا گیا جس کی روشنی میں اب عدالتی کارروائی شروع بھی ہوچکی ہے اس لئے فریقین کو انصاف کی عملداری پر یقین رکھتے ہوئے اپنے طور پر کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ملک میں پہلے ہی سیاسی فضا اتنی مکدر ہوچکی ہے کہ اس سے پورے سسٹم پر زد پڑتی نظر آرہی ہے اس لئے حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں اور انکی قیادتوں کو فہم و ادراک سے کام لے کر سسٹم پر منڈلاتے خطرات ٹالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ فاضل جج ارشدملک صاحب نے اپنے بیان حلفی میں جو چشم کشا انکشافات اور اعترافات کئے ہیں اس کا جائزہ لینے اور انصاف و قانون کی عملداری یقینی بنانے کا بھی عدلیہ ہی مجاز فورم ہے جس پر فریقین کو اعتماد بھی ہے اس لئے اب بہتر یہی ہے کہ جج ویڈیو کیس پر کسی دوسرے فورم پر کوئی تبصرہ اور خیال آرائی نہ کی جائے۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے اور بھی بہت سے مواقع موجود ہیں‘ کم از کم عدلیہ سے متعلق معاملات پر محاذآرائی کی سیاست گرمانے سے گریز کیا جائے۔