اسلام آباد (نیوز رپورٹر) حکومت ایوان بالا میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں مزید ترمیم کا بل (دستور (ترمیمی) 2020ء پیش کرنے کی تحریک منظور نہ کراسکی۔ بل کو پورے ایوان کی کمیٹی کے پاس بھجوانے کی کوشش بھی کامیاب نہ ہوسکی۔ بل کو کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا۔ بل کے حق میں 17 جبکہ مخالفت میں 25 ووٹ آئے۔ جس پر چیئرمین سینٹ نے بل مسترد کر دیا۔ اپوزیشن نے حکومت اور اس کی کارکردگی کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ کسی کو پارلیمنٹ پر شب خون مارنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پارلیمنٹ اس وقت انڈر اٹیک ہے۔ اٹھارہ ماہ میں ایف بی آر کے پانچ چئیرمین بدلے گئے۔ حکومت ہر روز بیس ارب کا اضافی قرض لے رہی ہے۔ صوبے ہی تو ملک چلا رہے ہیں، تنخواہ دے رہے ہیں۔ اب تو آئی ایم ایف بھی کہہ رہا ہے ان سے بجٹ بیلنس نہیں ہو رہا۔ اشرافیہ کی کوشش ہے اسلام آباد اور کراچی پر قبضہ رہے۔ اس بار آئی ایم ایف بھی شامل ہوگیا۔ آئی ایم ایف کو صوبوں کو مالیاتی اختیار پر اعتراض ہے۔ عالمی مالیاتی سامراج اور اشرافیہ مل کر صوبوں کے وسائل پر قبضہ چاہتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کو چھیڑا گیا تو اس کے نتائج مثبت نہیں آئیں گے۔ خدا کیلئے اس ریاست اور ملک پر رحم کریں۔ ہمیں کسی بھی حالت میں صدارتی نظام منظور نہیں۔ اٹھارہویں ترمیم سے صوبے مالیاتی طورپر متوازن ہوئے۔ وفاق میں مختلف ناموں سے وزارتیں دوبارہ بنائی گئی ہیں۔ اٹھارویں ترمیم نے حقوق دئیے کسی کی غلامی نہیں مانیں گے۔ جلد ہم قومی سطح پر آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے۔ اے پی سی کا موضوع بھی این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم ہوگا۔ ’’پلے نہیں دھیلا۔ کردی اے میلا میلا‘‘۔ اس وقت چھ شخص وزیر اعظم بنے گھوم رہے ہیں۔ پہلے گھر کو تو ٹھیک کرو۔ شیری رحمان، مشاہد اللہ، عطاء الرحمان، رضا ربانی ، عثمان کاکڑ کھل کر حکومت پر گرجے برسے۔ سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے قومی مالیاتی کمیشن میں ترمیمی بل کی تحریک ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ مالیاتی کمیشن کے تحت وفاق کے اخراجات بڑھنے سے صوبوں کے بجٹ میں کٹوتی ہوتی ہے۔ اس میں ترمیم کی جائے کیونکہ صوبوں کے ساتھ زیادتی ہوتی رہی ہے۔ بلوچستان کو کم حصہ مل رہا ہے۔ بلوچستان کو پنجاب سے زیادہ حصہ دیا جائے۔ اس معاملے پر سینٹ کی پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی میں بحث کرائی جائے۔ شیری رحمن نے بیرسٹر سیف کے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ افسوس ہے حکومتی بنچوں سے پارلیمان پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں پارلیمان انڈر اٹیک ہے۔ سنیٹر رضا ربانی نے کہا کہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جمہوری قوتیں اٹھارویں ترمیم پر گفتگو سے گریز کر رہی ہیں۔ اس بحث سے پیچھے ہٹنے کا تاثر درست نہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ کی جنگ یہی رہی ہے کہ تمام ملکی مسائل پر اسلام آباد کا قبضہ برقرار رہے۔ اشرافیہ صوبوں کے وسائل پر قابض ہونا چاہتی ہے۔ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بیرسٹر سیف کا بل حساس نوعیت کا ہے، تاثر دیا جا رہا ہے کہ میرا اور آپ کا آفس اس سازش میں ملوث ہیں، یہ بل ڈسکس ہوا ہے اور ایک منصوبہ بندی کے تحت لایا گیا ہے۔ سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ آج ہمیں دو پاکستان نظر آرہے ہیں، ایک پاکستان میں لوگ خوش نظر آرہے اور ایک میں پریشان ہیں۔ سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا اس ملک کو صدارتی نظام سے نقصان پہنچا۔ جنرل ایوب، ضیاء الحق اور مشرف کے دور میں صدارتی نظام رہا۔ تاریخ سے نابلد لوگ صدارتی نظام کی بات کر رہے ہیں۔ آج لیڈر آف ہاؤس کہہ رہے ہیں ملک میں جمہوریت ہے۔ ہمیں درس دے رہے ہیں۔ شہزاد وسیم اس وقت مشرف کے وزیر تھے۔ مشرف نے کہا کراچی میں قتل عام کیا اکبر بھگٹی کو قتل کیا گیا۔ یہ سارے کام صدارتی نظام میں ہوئے۔ کسی میں جرات نہیں صدارتی نظام لانے کی یا اٹھارہویں ترمیم ختم کرنے کی۔ یہ حکومت چل کیسے رہی ہے جس کے وزراء جھوٹ بولتے ہیں۔ علی زیدی اور احتساب اکبر آج کل پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں۔ الزام لگاتے رہے پی آئی اے میں بھائی بھرتی کرائے۔ ایک بھائی بھی کی بھرتی نکل آئے تو سینٹ سے مستعفی ہوجائوں گا۔ جلد بہت سے لوگ جیل میں ہونگے۔ یہ ایمپائر کی انگلی پر اچھل اچھل کر آئے تھے۔ اب انگلی بھی نکلنے والی ہے۔ قائد ایوان وسیم شہزاد نے انگلی کے لفظ پر احتجاج کیا اور چیئرمین سینٹ سے الفاظ حذف کرانے کا مطالبہ کرتے رہے۔ سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ اپوزیشن کو تعمیری سیات کرنی چاہیے تھی۔ ماضی کی حکومتوں نے معیشت، پی آئی اے سمیت تمام ادارے تباہ کر دیئے، تمام ادارے خسارے میں چھوڑ کر گئے، حکمران بنو، عوام کو لوٹو، سرے محل بنائو، پیسہ بیرون ملک منتقل کرو، ان کی تجوریاں بھرتی گئیں، غریب آدمی مزید غریب ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اداروں میں رشتہ داروں کو بھرتی کیا، میرٹ کو پامال کیا، انہوں نے ملک کو مل کر لوٹا، اٹھارویں ترمیم کا جائزہ ضروری ہے، وفاق صوبے اور صوبے وفاق پر ڈالتے ہیں، عوام دیکھتے رہتے ہیں، ہمیں دیکھنا ہو گا کہ عوام کو کیا ملا، ماسک سے عوام سے جو کچھ کیا ہے، ان کا چہرہ چھپ نہیں سکتا، ان کے لیڈران کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں، عمران خان کے خلاف مقدمہ ہوا، انہوں نے تمام دستاویزات فراہم کیں، ان کا پانامہ کے معاملے پر قطری خط سامنے آیا، ہم نے اپوزیشن کو تحمل سے سنا ہے۔ایوان بالا میں سرینگر جیل کے باہر ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں اذان دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والے کشمیریوں، کرونا وباء سے جاں بحق ہونے والوں، کراچی سٹاک ایکسچینج اور شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کی فائرنگ سے شہید ہونے والے پاک فوج کے شہداء کیلئے دعائے مغفرت کی گئی۔ علاوہ ازیں سینٹ میں اسلام آباد میں کریمنل پراسیکیوشن سروس کے قیام کے بل اور پاکستان کمیشن آف انکوائری ترمیمی بل سمیت 8 نئے بل پیش کر دیئے گئے جن میں پریس کونسل آف پاکستان ترمیمی بل‘ دستور ترمیمی بل آرٹیکل 73 میں ترمیم، دستور ترمیمی بل آرٹیکل 140 میں ترمیم) اسلام آباد ‘ وائلڈ (تحفظ بچاؤ کنزرویشن اور انتظام) ترمیمی بل، اسلام آباد دارالخلافہ لاء افسران بل اور ڈرگ ریلولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ترمیمی) بل شامل ہیں۔ چیئرمین سینٹ نے تمام بل متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کر دیئے۔ ایوان بالا میں عالمی وباء کے علاج اور روک تھام اور لاک ڈائون سے متاثرین کی امداد اور بحالی کے لئے ارکان پارلیمنٹ کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص شدہ فنڈز کو استعمال میں لانے کی قرارداد منظور کر لی۔ یہ قرارداد سینیٹر جاوید عباسی نے پیش کی۔ جسے ایوان نے منظور کر لیا۔ ایوان بالا نے سینٹر ثمینہ سعید کا ڈسلیکسیا خصوصی اقدامات بل 2020ء منظور کر لیا۔ ایوان بالا نے ایمپلائز اولڈ ایچ بینیفٹ انسٹی ٹیوشن کی جانب سے ریٹائرڈ اور بزرگ محنت کشوں کو دی جانے والی پنشن 8500 سے کم کر کے 6500 کرنے سے متعلق حکومتی فیصلے پر تشویش کی قرارداد متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دی گئی۔ سینٹ میں ملک میں قدرتی آفات اور تباہی کے خلاف اہم فصلوں خصوصاً گندم اور کپاس کی انشورنس کے لئے ضروری اقدامات اٹھانے کی قرارداد منظور کر لی۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران سینیٹر محسن عزیز نے قرارداد پیش کی کہ ملک میں قدرتی آفات اور تباہی کے خلاف اہم فصلوں خصوصاً گندم اور کپاس کی انشورنس کے لئے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں کو منظور کر لیا گیا۔ جبکہ ان کی تحریک کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا۔ وفاقی وزیر برائے امور کشمیر علی امین گنڈا پور نے اس پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت گلگت بلتستان کے عوام کی ترقی کے لئے پرعزم ہے، کرونا وباء کے باعث تمام ممالک کی معیشت متاثر ہوئی ہے لیکن گلگت بلتستان کا بجٹ کم نہیں کیا گیا۔ گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کو تمام اختیارات حاصل ہیں، پانچ اگست کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں گلگت بلتستان کی آئینی و علاقائی صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ چیئرمین سینٹ نے اس تحریک کو نمٹاتے ہوئے کہا کہ اس پر ان کیمرہ بریفنگ دی جائے گی۔ سینٹ نے عالمی وباء کی وجہ سے خلیجی ممالک میں پھنسے ہوئے خیبرپختونخوا کے مزدوروں کو پیش آنے والے مسائل، مشکلات اور واپس آنے والے محنت کشوں کو قرنطینہ مراکز میں مناسب سہولیات فراہم کرنے کے فقدان سے متعلق ترمیم شدہ قرارداد کی منظوری دے دی۔