گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک معزز خاتون کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ بڑے طمطراق سے پاکستان کے عوام کو مخاطب کر کے لیکچر دے رہی تھیں کہ کوئی مندر تعمیر ہو جائے تو ہمارے دین کو خطرہ، کوئی گرجا گھر یا گوردوارہ تعمیر ہو جائے تو ہمارے دین کو خطرہ مگر جب ہم ہیرا پھیری کرتے ہیں، دودھ اور دوسری اشیاء میں ملاوٹ کرتے ہیں ، منبروں پر بیٹھ کر تفرقہ بازی کرتے ہیں ، پوری زندگی جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں، کرپشن کا بازار گرم کرتے ہیں ، حتیٰ کہ کرونا کی ٹوٹی ہوئی افتاد کے دنوں میں بھی ہیرا پھیری ، ملاوٹ ، کرپشن سے باز نہیں آتے تو ہمارے دین کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ ہمارے دین کو خطرہ مندروں ، گوردواروں اور گرجا گھروں سے نہیں بلکہ ہماری اپنی منافقتوں سے ہے۔
بادی النظر میں تو خاتون کے لیکچر کا طنز کے نشتر سے گھائو لگانے والا ایک ایک لفظ ہمارے مردہ ضمیروں کو جھنجوڑنے کا باعث ہی بننا چاہئے کیونکہ ہمارا رہن سہن کا مجموعی کلچر ویسا ہی ہے جو اس خاتون کے لفاظی سے بھرپور لیکچر میں دکھایا گیا اور اگر عام حالات میں ہمارے عمومی رویوں کی عکاسی کرتی یہ بات کہی گئی ہوتی تو میں بھی یہی محسوس کرتا کہ …؎
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
مگر خاتون محترمہ کا یہ لیکچر بالخصوص حکومت کی زیر سرپرستی اور فنڈنگ کے تحت وفاقی دارالحکومت میں تعمیر ہونے والے مندر کے دفاع میں تھا اور وہ درحقیقت اس مندر کی دین اسلام کے نقطۂ نظر سے مخالفت کرنے والے حلقوں کے لتّے لے رہی تھیں جس کے لئے انہوں نے اخلاقی اقدار کو ڈھال بنا کر ہماری مروجہ اخلاقیات کا مذاق اڑاتے ہوئے مندر کی تعمیر کا جواز نکالنے کی کوشش کی۔
ہمارا سوشل میڈیا ہمارے معاشرے میں رائج بے ایمانی ، بددیانتی ، غیبت ، چور بازاری ، کرپشن کی مارا ماری ، ریاکاری ، اقربا پروری اور کسی بھی حیثیت میں اختیارات کے ناجائز استعمال والے کلچر کی بھد اڑانے میں پیش پیش ہے اور اس ناطے سے ہمارے کلچرکا لادین مغربی کلچر سے موازنہ کرتے ہوئے مسلمانوں اور دین اسلام کو تضحیک کا نشانہ بنانا بھی آسان ہو جاتا ہے جس میں ہمارے ’’روشن خیال‘‘ طبقات بھی اپنے جُثے سے بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالتے ہیں۔ ارے بھئی، ہمیں اعتراف ہے کہ ہم اسی کلچر کے باسی ہیں ، یہ ساری خباثتیں ، یہ ساری قباحتیں، یہ ساری برائیاں ، یہ سارے لچھن اور یہ ساری ہیرا پھیریاں اس کلچر کے باسی ہونے کے ناطے ہم میں بدرجہ اتم موجود ہیں اور فی الواقع ہم احمد ندیم قاسمی کے اس شعر کو اوڑھے بیٹھے ہیں کہ …؎
مجھے بہشت سے انکار کی مجال کہاں
مگر زمین پہ محسوس یہ کمی تو کروں
مگر حضور! کیا اس کلچر کا درس ہمیں دین اسلام نے دیا ہے اور کیا اس کلچر کے لئے رغبت ہمیں خدائے بزرگ و برتر کی ودیعت کردہ کتابِ ہدایت قرآن مجید کے ذریعے ملی ہے اور کیا ہمیں سرور کائنات ، محسن انسانیت اور رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے اور خلفائے راشدین و آئمہ کرام کی تعلیمات و طرز حیات سے ہمیں دنیاوی جھمیلوں سے معمور اس کلچر کو اپنانے کی ترغیب ملی ہے۔ آپ ربِ کائنات کے قرآن مجید میں متعین کردہ ضابطۂ حیات کا گہرائی کے ساتھ کبھی مطالعہ تو کر لیں ، رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی کوئی جھلک تو دیکھ لیں اور خلفائے راشدین و آئمہ کرام کے کردار و عمل کا جائزہ تو لے لیں، ان ساری خباثتوں ، برائیوں ، ریاکاریوں اور لغزشوں سے مکمل گریز و پرہیز کی آپ کو تلقین ملے گی۔ اگر قرآن و احادیث میں ہمارے لئے یہ درس موجود ہیں کہ ’’جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔
’’رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں‘‘۔ اور اسی طرح ہمیں ہمارے دینِ مبین نے اقلیتوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور جانوروں تک سے صلہ رحمی کا درس دیا ہے تو دنیاوی خباثتوں سے معمور کلچر کو اپنانے والے ہمارے معاشرے کے ناطے مجموعی طور پر دینِ اسلام اور امتِ مسلمہ کو گالی دینا چہ معنی دارد؟
حضور! یہی تو الحادی قوتوں کا وہ باطل ایجنڈہ ہے جس کے تحت اتحادِ امت کو توڑنے اور مسلمانوں میںنفاق ڈال کر انہیں منتشر کرنے کی سرتوڑ کوششیں جاری ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے گھر کے اندر سے ہی ’’روشن خیالوں‘‘ کی شکل میں انہیں اپنے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لئے ایندھن بھی دستیاب ہے۔
اقلیتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا درس ہمیں خالقِ کائنات اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوددیا ہے تو یہی ہمارے لئے زاد راہ ہے مگر جو امتیاز مسلم اور غیر مسلم کی عبادات و عبادت گاہوں کے حوالے سے خود ربِ کائنات اور سرورکائنات نے یقیناً کسی حکمت کے تحت پیدا کیا ہے اس پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد بھی ہمارے دین و ایمان کاحصہ ہے جس پر عمل نہ کرنا اور اس کے برعکس عمل کرنا بھی ایسی ہی برائی ہے جیسی کسی دوسری دنیاوی برائی سے باز رہنے اور باز نہ رہنے کی صورت میں جہنمی ہونے کا ہمیں قرآن و حدیث میں درس دیا گیا ہے۔
ہندوئوں کا مندر یا کسی دوسرے مذہب و معاشرت کے پیروکاروں کی عبادت گاہ اسلام آباد میں تعمیر ہو یا مسلم خطہ کے کسی دوسرے علاقہ میں‘ اگر اس تعمیر پر مسلمانوں یا کسی مسلم حاکم کی جانب سے رقم خرچ کی جا رہی ہے یا ڈونیشن دی جا رہی ہے تو قرآن وحدیث کے تحت وہ حرام ہے۔ اس لئے میں اپنی ویڈیو وائرل کرنے والی خاتون محترم اور دین اسلام کو گالی بنا کر پیش کرنے والے دوسرے روشن خیال طبقات کو مستند دینی سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کی ویڈیو کا بھی گہرائی اور باریک بینی کے ساتھ مشاہدہ کرنے کی درخواست کروں گا جو سوشل میڈیا پر موجودہے۔ اس ویڈیو میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے حوالے سے اسلام آباد ہی کے ایک صاحب کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وضاحت کی ہے جو تمام مکاتبِ فکر کے فقہاء کرام بشمول امام ابو حنیفہ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے اس ایشو پر اتفاق رائے پر مبنی ہے کہ کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کو اس کی عبادت گاہ کی تعمیر کے لئے رقم کی صورت میں یا کسی بھی دوسرے طریقے سے معاونت فراہم نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اس حوالے سے قرآن مجیدکی سورہ مائدہ کا حوالہ دے کر مہر تصدیق بھی ثبت کر دی ہے جس کے تحت ربِ کائنات نے خود حدمقرر فرما دی ہے کہ مسلمان کسی غیر مسلم کی عبادت گاہ کی تعمیر کے لئے ہرگز تعاون نہ کریں۔ اس حوالے سے یہ واضح ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ غیر مسلموں کی کسی عبادت گاہ کے لئے عوام کے ٹیکسوں سے رقم خرچ کرنا کسی بھی مسلمان بشمول حاکم کے لئے حرام ہے۔ ہمیں اپنی خباثتوں ، حرام کاریوں ، بداعمالیوں کی ضرور اصلاح کرنی چاہئے مگر مندر یا کسی دوسری غیر مسلم عبادت گاہ کی تعمیر کے معاملہ میں ہمیں قرآن و حدیث کی تعلیمات پر ہی عمل پیرا ہونا ہے۔ یہ مجہول جواز ہو گا کہ متحدہ عرب امارات میں حکومتی سرپرستی میں مندر تعمیر ہو سکتا ہے تو اسلام آباد میں کیوں نہیں۔