پاکستان بحریہ جسے پاکستان کے سمندری محاذوں کا دفاع کرنے کا مقدس فریضہ سو نپا گیا ہے، اس نے حال ہی میں 2300 ٹن وزنی جدید جنگی جہاز پی این ایس یرموک کو اپنے بیڑے میں شامل کیا ہے۔ پی این ایس یرموک ڈچ جہاز ساز کمپنی ڈامین شپ یارڈز کی جانب سے بنائے جانے والے دو جہازوں میں سے پہلا جہاز ہے جس کو جلاٹی رومانیہ میں تیار کیا گیا ہے۔ڈامین شپ یارڈ کمپنی نے 30 جون 2017 کو ایک
ٹینڈر کے ذریعے پاکستان بحریہ کے لیے دو کثیر المقاصد آف شور پیٹرول ویسلز (او پی وی) بنانے کے لئے وزارت دفاعی پیداوار پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیا۔ اس کمپنی نے دفاعی اور سیکیورٹی اداروں کے لئے لگ بھگ 40 جہاز تیار کیئے ہیں، جن میں رومن بارڈر پولیس کا پرچم بردارجہاز، رائل نیدرلینڈ نیوی کے لئے سات جدید بحری جہاز اور اسٹیفن سیل میئر آف شور پیٹرول شامل ہیں۔پی این ایس یرموک ایک جدید ترین الیکٹرانک وارفیئر، اینٹی شپ اور اینٹی سب میرین وارفیئر پلیٹ فارم ہے جس میں جدید دفاعی نظام اور ٹرمینل ڈیفنس سسٹم موجود ہے۔ پی این ایس یرموک مختلف قسم کے سمندری کام انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ ایک ہیلی کاپٹر اور بغیر پائلٹ کا فضائی جہاز (یو اے
وی) لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ جہاز بیک وقت دو تیز رفتار آر ایچ آئی بی کشتیاں بھی لانچ کرسکتا ہے اور خصوصی مشن پر مبنی کارروائیوں کے لئے بیس فٹ لمبے دو کنٹینر رکھنے کی بھی اہلیت رکھتا ہے۔پاکستان بحریہ میں بحری جہازوں کا نام تاریخی شخصیات یا واقعات پر رکھا جاتاہے۔ پی این ایس یرموک کانام یرموک کی لڑائی کی یاد میں رکھا گیا ہے جو کہ خالد بن ولید کی قیادت میں مسلمان افواج اور تھیوڈور ٹریتھریس کی قیادت میں بازنطینی افواج کے درمیا ن 636 عیسوی میں ہوئی۔ مسلمانوں کی فتح نے شام میں بازنطینی سلطنت کو ختم کیا۔پاکستان بحریہ نے 14 اگست 1947 کو قیام پاکستان کے وقت کم بحری قوت کے ساتھ آغاز کیا،تاہم اب یہ ایک کثیر الجہتی لڑاکا قوت بن چکی ہے جو انتہائی محرک اور پیشہ ورانہ صلاحیت کی حامل افرادی قوت کے ساتھ کام کر رہی ہے اور قادر مطلق اور قومی مقصد پر غیر متزلزل عقیدے سے سرشار ہے۔ پاکستان بحریہ قومی سلامتی اور سمندری معیشت میں موثر کردار ادا کر رہی ہے، پاکستان کے سمندری مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور عالمی نقطہ نظر سے خطے میں اہم مقام کی حامل ہے۔کارویٹ چھوٹے جہاز ہیں جن کا پیش روسلوپ تھی۔ کارویٹ کا کردار ابتدائی طور پر ساحلی گشت، معمولی جنگیں لڑنے، بڑے بیڑے کی مدد کرنے اور جھنڈے کی نمائش کے مشن میں حصہ لینے پر مشتمل تھا۔ جدید کارویٹ دوسری جنگ عظیم کے دوران آسانی سے تعمیر شدہ گشت کا جہاز اور قافلے کے محافظ جہاز کے طور پر نمودار ہوا۔ جدید بحری جہازوں نے 20 ویں صدی کے آخر میں اور 21 ویں صدی کے آغاز میں زیادہ نقل و حرکت کی صلاحیت کی طرف توجہ دینے کا آغاز کیا. کارویٹس کی ڈس پلیسمنٹ 500 سے3000 ٹن کے درمیان ہوتی ہے اور لمبائی 180–420 فٹ (55-128 میٹر) ہوتی ہے۔ یہ جہاز عام طور پر درمیانے اور چھوٹے کیلیبر کی گنز، سطح سے سطح اور سطح سے ہوا تک مار کرنے والے میزائلوں اور اینٹی سب میرین ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں۔ جدید کارویٹس چھوٹے یا درمیانے درجے کے اینٹی سب میرین وارفیئر ہیلی کاپٹر کو ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ بھارتی بحریہ چار کامورٹا کلاس کارویٹ چلارہی ہے۔ پاکستان میں سب سے چھوٹی فوج ہونے کے باوجود پاک بحریہ ملک کے سمندری مفادات کے تحفظ، ساحلی اور سمندری راستوں سے جارحیت کو روکنے، ساحلی برادریوں کی ترقی میں حصہ لینے اورسمندر میں اچھے نظام کو برقرار رکھنے کی بین الاقوامی کوششوں میں حصہ لینے اور سمندری مواصلات کے راستوں (ایس ایل او سی) کی حفاظت کے اہم امور کی ذمہ دار ہے۔ اس کے باوجود کہ پاکستان میں ایک عرصے تک سمندری فوج کے کردار کو اہم نہیں سمجھا گیا اور اسے مزید گھٹانے پر بھی غور کیا گیا، پاک بحریہ نے 1965 کی پاک بھارت جنگ میں اپنی قابلیت کا ثبوت دیا، جس میں پاک بحریہ کی سب میرین غازی نے ہندوستانی بحریہ کو خلیج میں رہنے پر مجبور کیاجبکہ پاک بحریہ کے سطح آب بیڑے نے دوارکا کی ہندوستانی بحری بندرگاہ پر گولہ باری کی۔ بھارتی بحریہ کے تجزیہ کار کے ایم پنیکار نے اپنی 1951کی کتاب'' بھارت اور بحر ہند: بھارتی تاریخ میں سمندری طاقت کے اثر و رسوخ پر ایک مضمون''میں لکھا تھا کہ پاکستان میں دو بحری افواج ہوں گی، ایک مغرب کے لیے جبکہ دوسری مشرقی پاکستان کے دفاع کے لئے۔ اگر ہم دانشمندی کی اس بات پر دھیان دیتے تو ہم 1971 میں مشرقی پاکستان کی بحری ناکہ بندی سے بچ جاتے جس نے ہمارے مشرقی ونگ کی علیحدگی پر مہر تصدیق ثبت کردی۔خوش قسمتی سے اسلام آباد میں اقتدار کی راہداریوں میں تبدیلیوں نے افواج پاکستان کے بحری دستے کو اہمیت دی ہے۔ اس طرح پاکستان بحریہ سطح آب، زیر آب اور فضائی اثاثوں پر مشتمل ایک اہم فوج بنانے میں کامیاب رہی ہے۔قدرت نے پاکستان کو بہت سی سمندری صلاحیتوں سے نوازا ہے،ان وسائل کو تلاش کرنے اور ان سے استفادہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کے خصوصی معاشی زون (ای ای زی) جوکہ پاکستان کے ساحل سے 350 ناٹیکل میل (توسیع شدہ کانٹیننٹل شیلف) پر مشتمل ہے کی توسیع سے پاکستان بحریہ کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ مزید برآں، پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی آمد، گوادر کی اسٹریٹجک بندرگاہ کی تعمیر اور سمندری دہشت گردی کے آغاز کے ساتھ پاک بحریہ بحری محاذوں کی جان فشانی سے حفاظت کے لئے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے۔یہ بات قابل تحسین ہے کہ پاکستان کے سمندری محاذوں کی حفاظت کے علاوہ پاک بحریہ نے ہائیڈرو گرافی اور باتھومیٹری پرمشتمل امن مشن کے انعقاد کی ذمہ داری بھی اٹھائی ہے۔ قیمتی زیرآب وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان نے حال ہی میں پی این ایس بحر مساح کو ہائیڈرو گرافک اور جغرافیائی سروے کرنے کے ساتھ ساتھ سمندری تہہ کی نقشہ سازی کے لئے بیڑے میں شامل کیا۔توقع کی جارہی ہے کہ پی این ایس یرموک اور بعد میں تبوک پاکستان کے بحری محاذوں کی حفاظت کے لئے پاک بحریہ کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں گے اور بحر ہند میں ریجنل میری ٹائم سیکیورٹی پیٹرول میں مزید بہتری پیدا کریں گے۔