افغانستان سے متعلق حکمت عملی چین۔ روس کی مشاورت سے بنائینگے: شاہ محمود

دوشنبے+اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+نامہ نگار) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دوشنبے میں افغان ہم منصب محمد حنیف آتمر کیساتھ ملاقات میں ان پر واضح کیا کہ منفی بیانات سے افغان امن عمل میں پاکستان کے مثبت کردار کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ الزام تراشی کسی فریق یا خطے کے میں مفاد میں نہیں ہے۔ تفصیل کے مطابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی دوشنبے میں ایس سی او وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے موقع پر افغان ہم منصب کیساتھ ملاقات ہوئی جس میں افغانستان کی موجودہ صورتحال اور آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا۔ شاہ محمود قریشی نے افغان ہم منصب کو پاکستان کی جانب سے متحدہ اور پر امن افغانستان کی مستقل حمایت کا یقین دلایا۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ان پرتشدد کارروائیوں میں کمی لانے اور جنگ بندی کیلئے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ نے افغان ہم منصب پر زور دیا کہ باہمی امور پر گفتگو، طے شدہ میکنزم، ایپیپس  کو بروئے کار لاتے ہوئے ہونی چاہیے۔ اسلام آباد میں پاکستان اور افغانستان کے مابین موجود مشترکہ میکنزم  کے جائزہ اجلاس کے جلد انعقاد کے متمنی ہیں۔ انہوں نے افغان قیادت پر زور دیا کہ وہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے تناظر میں باہمی مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کا جلد سیاسی حل نکالیں تاکہ افغانستان میں مستقل اور دیرپا قیام امن کی راہ ہموار ہو سکے۔ دریں اثناء غیر وابستہ ممالک کی تحریک کے اجلاس سے خطاب بھی کیا۔ شاہ محمود نے  اپنے خطاب میں کہا کہ مناسب قیمت پر کرونا ویکسین کی مساوی فراہمی یقینی بنانا ہوگی۔ کوئی ملک خواہ کتنا ہی خوشحال ہو‘ موجودہ چینلجز کا مقابلہ تنہا نہیں کر سکتا۔ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے عالمی تعاون درکار ہے۔ دیرینہ تنازعات پر عدم مساوات، موسمیاتی تبدیلی عالمی ترقی کیلئے خطرہ ہیں ۔ بڑی طاقتوں میں کشیدگی عالمی ترقی کیلئے خطرہ‘ اسلحے کی دوڑ‘ نسل پرستی‘ اسلاموفوبیا عالمی امن میں رکاوٹ ہیں ۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ روس، چین اور وسطی ایشیا کے ممالک خطے کے اہم ممالک ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے ان اہم ممالک سے مشاورت کے بعد متفقہ حکمت عملی اپنائیں گے۔ تاجکستان میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس اور افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے ایک بیان میں وزیر خارجہ نے کہا کہ میں اس وقت شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کیلئے تاجکستان میں موجود ہوں۔ تاجکستان کے وزیر خارجہ سے افغانستان کی صورتحال پر میری تفصیلی گفتگو ہوئی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ سب خطے کے اہم ممالک ہیں اور افغانستان کی صورتحال پر نظر بھی رکھے ہوئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ  چین روس جیسے اہم  ممالک سے مشاورت کے بعد افغانستان کے حوالے سے متفقہ حکمت عملی اپنائی جائے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھارہا ہے۔ خدانخواستہ افغانستان کی صورتحال بگڑتی ہے تو سب متاثر ہوں گے۔ یہ مشاورتی عمل کو آگے بڑھا نے کا سنہری موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہے جو کئی دہائیوں سے تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کی خدمت کررہا ہے۔ اب اگر خدانخواستہ حالات خراب ہوتے ہیں تو ہم مزید افغان پناہ گزینوں کو رکھنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ افغان پناہ گزینوں کی آڑ میں ایسے عناصر بھی داخل ہو سکتے ہیں جو ہمیں نقصان پہنچائیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پناہ گزینوں کی آڑ میں پاکستان کے دشمن داخل ہوسکتے ہیں۔ ہم انسانی ہمدردی کے تحت ان کی معاونت کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے معصوم لوگوں کا تحفظ بھی ہمیں یقینی بنانا ہے۔شاہ محمود قریشی نے ازبکستان کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات‘ علاقائی صورتحال اور دوطرفہ تعاون کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا۔ شاہ محمود قریشی نے قازقستان کے وزیر خارجہ سے بھی ملاقات کی۔ پاکستان اور قازقستان میں ہم آہنگی اور مماثلت خوش آئند ہے۔ دونوں وزراء خارجہ نے علاقائی روابط کے فروغ اور دوطرفہ تعاون بڑھانے کیلئے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...