لاہور سے شیخوپورہ بہت سفر کیا ہے لیکن ایسا سفر کبھی نہیں کیا کہ نہ جاتے ہوئے کچھ سمجھ آئے نہ واپسی پر قدم ساتھ دیں، ایسی جگہ، وہ گلیاں، وہ بازار یا وہ میدان جہاں نوید عالم ساری زندگی گھومتا پھرتا رہا، ہنستا مسکراتا، قہقہے لگاتا، لوگوں سے الجھتا اور ہاکی کھیلتا رہا ہو، انہی گلیوں بازاروں اور میدانوں سے وہ اپنا آخری سفر کرتے ہوئے منوں مٹی تلے سو گیا ہے۔ اس کے جنازے پر بہت لوگ تھے، دعا کرنے والے، ورلڈ چیمپیئن کو الوداع کرنے والے، اسے دعاؤں میں رخصت کرنے والوں کی کمی نہ تھی، شیخوپورہ والوں نے اپنے عالمی چیمپیئن کو پورے اعزاز اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا ہے۔ میں نے اس کے جنازے میں ان لوگوں کو بھی دیکھا ہے جنہوں نے گذشتہ بیس سال میں نوید عالم کو سب سے زیادہ اذیت دی ہے۔ ان لوگوں کی وجہ سے نوید عالم کی زندگی مشکل ہوئی، وہ ساتھی کھلاڑی جو اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے نوید عالم پر پابندی لگاتے رہے۔ وہ سب چہرے وہاں موجود تھے۔ ایسے لوگ جن سے ایک اختلافی آواز برداشت نہیں ہوتی تھی اور وہ ہر وقت اس کا راستہ روکنے میں مصروف رہتے تھے۔ وہ سب شیخوپورہ میں نوید عالم کے جنازے پر نظر آئے۔ جب وہ زندہ تھا تو اس وقت خیال نہ کیا، جب وہ گراؤنڈ میں بھاگنے کے قابل تھا اس وقت راستہ روکتے رہے، جب وہ قومی کھیل کی خدمت کر سکتا تھا اس وقت راستے بند کرتے رہے اور جب وہ کچھ نہیں کر سکتا تو سب اس کے پاس پہنچ گئے۔ ہم ایسے ہی مردہ پرست ہیں، زندہ لوگوں کی ناقدری اور آنکھیں بند کر لینے والوں کے لیے آنسو بہانے سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔ آج ان لوگوں کو نیند نہیں آئے گی جو یہ جانتے ہیں کہ وہ نوید عالم کے ساتھ کیا ظلم کرتے رہے ہیں۔ وہ بیماری کی حالت میں دنیا سے گیا ہے اللہ اس کے درجات بلند کرے لیکن اس کی بیماری کی وجہ کوئی اور نہیں اس کے ساتھی کھلاڑی ہیں، یہ صدر پاکستان ہاکی فیڈریشن بریگیڈیئر خالد سجاد کھوکھر، یہ سیکرٹری پاکستان ہاکی فیڈریشن اولمپیئن آصف باجوہ، اولمپیئن رانا مجاہد علی خان اور اس قبیلے کے تمام افراد جو ہر وقت پاکستان ہاکی فیڈریشن میں بیٹھ کر یہی منصوبے بناتے رہتے تھے کہ نوید عالم کا راستہ کیسے روکنا ہے۔ کیا کسی میں ضمیر نام کی کوئی چیز ہے۔ ایک ہنستے مسکراتے چہرے کی زندگی میں آگ لگانے والے میت پر پھول برسانے کے لیے حاضر ہو گئے۔
نوید عالم کا انتقال ہاکی کھیلنے والوں کے لیے بھی سبق ہے، اس کھیل کی سیاست کرنے والوں کے لیے بھی سبق ہے اور اس کھیل سے جڑے ہر فرد کے لیے بھی سبق ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ساتھی کھلاڑیوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری اولمپیئن آصف باجوہ اور ان کے ساتھیوں کو مبارک ہو کہ اب انہیں نوید عالم پر پابندی نہیں لگانا پڑے گی، اب انہیں کسی اپوزیشن کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، اب کوئی انہیں للکارنے کے لیے موجود نہیں ہے۔ دفن ہوئی ہاکی کا نوحہ کرنے والے نوید عالم پر پابندی لگانے والوں نے بھی اپنے دورِ اقتدار اللہ کو جواب دینا ہے۔ بہرحال قومی کھیل کا مزاحمتی کردار شیخوپورہ میں اپنے والد کے ساتھ دفن ہو گیا ہے۔ نہ اس نے ہاکی کے علاوہ کوئی کام کیا اور ہاکی والوں نے اسے ہاکی کا کام کرنے نہیں دیا۔ یہاں تعزیتی بیان جاری کرنے سے بہتر ہے کہ نوید عالم کے خواب کو تعبیر دینے کے لیے کام کریں۔ ہاکی کے کھوئے ہوئے مقام اور وقار کے لیے عملی اقدامات کریں۔ کاش کہ قومی کھیل سے تعلق رکھنے والا کوئی کھلاڑی کبھی کسی مشکل میں نہ آئے، کبھی وہ بیمار نہ ہو، کبھی اسے کسی کی مدد کی ضرورت پیش نہ آئے۔ ہمارے لیے اس سے بڑی شرمندگی کوئی نہیں ہے کہ دنیا میں سبز ہلالی پرچم بلند کرنے والوں کو کسی مشکل وقت میں حکمرانوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ وہ نامور کھلاڑی جن سے آٹو گراف لینے کے لیے لوگ گھنٹوں انتظار کرتے ہیں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ان کے اہلخانہ حکمرانوں کے دفتروں کے بہت انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ اولمپیئن منصور احمد کی موت کا دکھ کم نہیں ہوا تھا کہ نوید عالم بھی چل بسا۔ دونوں کی زندگی کے آخری ایام ہمارے کھیل دشمن رویوں اور ہیروز کو نظر انداز کرنے کی روایت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔
چند روز قبل خبر ملی کہ وہ بلڈ کینسر میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ شاید انہیں کچھ مالی مسائل کا بھی سامنا تھا۔ شوکت خانم ہسپتال نے ان کے علاج کا تخمینہ چالیس لاکھ سے زائد لگایا ان کے کچھ دوستوں نے خاموشی سے نوید عالم کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات کا بندوبست کر لیا تھا۔ اس دوران سندھ حکومت نے بھی اولمپیئن نوید عالم کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات ادا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے شوکت خانم ہسپتال کو خط بھی لکھ دیا بعد میں پنجاب حکومت نے بھی ایسا ہی اعلان کیا لیکن شاید کسی کی قسمت میں نہیں تھا کہ وہ نوید عالم کی خدمت کر سکتا۔ زندگی بھر اچھے کپڑے پہن کر، اچھی خوشبو لگا کر، اچھی گاڑی میں گھومنے پھرنے والے نوید عالم نے وضع داری میں زندگی گذاری شاید یہی وجہ تھی کہ وہ اعلانیہ کسی سے مدد لینے سے قبل ہی دنیا سے چلا گیا۔ میری ان سے کوئی بہت زیادہ ملاقاتیں تو نہیں تھیں لیکن جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے مرحوم میر ظفر اللہ خان جمالی کو قومی کھیل کی بہتری کے لیے کردار ادا کرنے کی درخواست کی تو ان دنوں انیس سو چورانوے عالمی کپ کے فاتح کپتان شہباز احمد سینئر کی اسلام آباد میں میر ظفر اللہ خان جمالی سے اس سلسلہ میں ملاقات ہوئی اس کے بعد شہباز احمد سینئر پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل بنے۔ اس سارے واقعے میں اولمپیئن نوید عالم سے بھی چند ملاقاتیں ہوئیں، اس کے بعد بھی کچھ عرصہ تک ٹیلی فون پر نوید عالم سے بات چیت ہوتی رہی۔ نوید عالم قومی کھیل کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتا تھا، اس کا اپنا ایک انداز اور طریقہ کار تھا اس کے طریقہ کار سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی زندگی میں ہاکی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ نوید عالم کے ساتھ بات کرتے ہوئے کبھی تلخی بھی آ جاتی لیکن اس نے کبھی تلخی میں جواب نہیں دیا بلکہ ہمیشہ یہ کہا کہ چودھری صاحب آپ بڑے بھائی ہیں اتنا غصہ نہ کیا کریں۔ شاید وہ میرا احترام مرحوم میر ظفر اللہ خان جمالی کی وجہ سے کرتا تھا، وہ ہمیشہ احترام کے ساتھ پیش آتا۔ جمالی صاحب سے عشق تھا۔ وہ انہیں اپنا روحانی بزرگ قرار دیتا تھا۔ کاش کہ ہم اس کی کوئی خدمت کر سکتے۔ حکومت سے درخواست ہے کہ اس کے بیٹے یا بیٹی کی سرکاری ملازمت کا بندوبست کرے۔نوید عالم 1994 کے ہاکی ورلڈکپ کی فاتح پاکستان ٹیم کے رکن تھے جب کہ اولمپکس، چیمپئنز ٹرافی اور ایشین گیمز سمیت متعدد ایونٹس میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔ وہ پاکستان ہاکی ٹیم، چین ہاکی ٹیم اور بنگلا دیش ہاکی ٹیم کے بھی کوچ رہ چکے تھے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن میں ڈائریکٹر ڈیویلپمنٹ کے عہدے پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو وبر جمیل عطاء فرمائے۔ آمین
لندن سے چودھری اقبال الدین احمد لکھتے ہیں اکرم صاحب معمولی خبر لیکن آپ کو بتائے بغیر چین نہیں آ رہا۔ کل میں نے اپنے گھر کے نزدیک سے بازار جانے والی بس روٹ نمبر ۷۳’ پکڑی جو آکسفورڈ سٹریٹ میں آکسفورڈ سرکس سے چلتی ہے اور ہمارے لوکل شاپنگ سینٹر پر ختم ہو جاتی ہے۔میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک 25/20سال کی عمر کی ایشین لڑکی اس بس کی ڈرائیور ہے اور اس نے سر سے پاؤں تک بالکل ہماری بہنوں بیٹیوں والے کپڑے پہن رکھے تھے یعنی سر پر دوپٹہ اس طرح جیسے پاکستان میں ہمارے گھروں میں ہوتا ہی ہے ، یعنی سر’ گردن ڈھکی ہوئی اور بالکل مریم اورنگ زیب کی طرح، بمع قمیض اور شلوار۔ مجھے انگلینڈ میں رہتے ہوئے 57 سال کا عرصہ ہو چکا ہے اور اس دوران اگرچہ میں آکسفورڈ ، آلڈر شاٹ، مانچسٹر ،ہڈرز فیلڈ اور گلاسگو وغیرہ بھی رہا ہوں لیکن 90 فیصد لندن کے علاقے سٹوک نیو انگٹن میں گزرا ہے جو(inner city) میں پڑتا ہے۔ اس پورے عرصے میں کسی جگہ اور کبھی بھی کسی خاتون ڈرائیور کو لوکل انگلش لباس کے علاوہ کسی لباس میں نہیں دیکھا۔ ہاں،دکانوں پر، ڈاکٹروں کی سرجریوں پر، کیمسٹ کی دکانوں پر، عام سڑکوں پر، سکول جانے والی بچیوں کو اس لباس میں بہت پائیں گے لیکن بس ڈرائیور کی حیثیت میں پہلی دفعہ دیکھا گیا۔میں نے اترنے سے پہلے مسکراتے ہوئے ہوئے اس کے لباس کی تعریف کی جواب میں اس نے مسکراتے ہوئے میرے ان الفاظ پر ‘تھینک یو’ کہا۔اسے کہتے ہیں برداشت اور کام،کا م اور کام۔اور یہ فرق ہے لندن اور پیرس کا۔ آپ کے کام میں مخل ہونے کی معافی چاہتا ہوں۔
یہ رویہ، لباس اور عزم اور لگن ہمارے لیے سبق ہے بلکہ یہ دنیا کے لیے بھی سبق ہے۔ ہم لوگوں کی آخرت کے فیصلے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمیں تحمل مزاجی برداشت اور انسانی ضروریات کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھنے اور اپنی نسلوں کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔
قارئینِ نوائے وقت سے نوید عالم کی مغفرت کے لیے دعا کی درخواست ہے۔