کہتے ہیں انسان کی محنت اپنی جگہ لیکن زندگی میں قسمت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بطور مسلمان تو ہمارا عقیدہ ہے کہ جو کچھ قسمت میں لکھا ہے ملکر رہیگا۔ جنرل یحییٰ خان پاکستان آرمی کا پانچواں کمانڈر انچیف تھا۔ کردار کے لحاظ سے وہ ایک محب وطن ایماندار اور پیشہ ور سولجر تھا۔ قسمت اسے جنرل اور کمانڈر انچیف کے عہدے تک لے گئی۔ ملکی فوج کو کمانڈ کرنا نہ صرف ایک بہت بڑا عہدہ ہے بلکہ ایک بہت بڑا اعزاز بھی ہے۔ قسمت نے مزید یاوری کی اور اور وہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی بنا اور صدر پاکستان بھی۔ اس حیثیت میں وہ پاکستان کا تیسرا صدر تھا۔ یہ دونوں عہدے اتنے طاقتور تھے کہ وہ پاکستان کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔اس نے پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات کروائے۔منتخب ہونے والے شیخ مجیب الرحمن کو پاکستان کا اگلا وزیر اعظم بنانے کا اعلان بھی کیا۔مگر بھٹو صاحب نے یہ فیصلہ منظور ہی نہ کیا۔یہ پاکستان کی تاریخ کا وہ دور تھا جب مشرقی پاکستان میں حالات بہت خراب ہو گئے۔ نتیجتاً پورے ونگ میں اس حد تک بد امنی پھیلی کہ فوجی آپریشن نا گزیر ہو گیا۔ یہ اپریشن متحدہ پاکستان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔اس سے بھارت کو موقعہ مل گیا اور اس نے مشرقی پاکستان پر فوجی حملہ کرکے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کر دیا۔ مشرقی پاکستان میں ہمارے سولجرز اور سویلینز تقریباً93ہزار بھارت کی قید میں چلے گئے۔ جنرل یحییٰ خان چونکہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان تھا اس لئے تاریخ کے اس بھیانک سانحے کا سار الزام اسی پر لگا۔ یوں وہ پاکستان کی تاریخ کا نہ صرف بد قسمت بلکہ بدنام ترین شخص بن گیا حالانکہ بہت سے لوگوں کی نظر میں وہ اتنا بڑا مجرم تھا نہیں جتنا اسے بنادیا گیا ہے۔یحییٰ خان نے بار بار اوپن ٹرائل کی استدعا کی مگر اسے دفاع کا موقعہ ہی نہ دیا گیا۔
یحییٰ خان 4فروری1917کو چکوال میں پیدا ہوا۔ فوجی اداروں میں تعلیم حاصل کی اور پھر انڈین ملٹری اکیڈیمی ڈیرہ دون سے 15جولائی1938کو انفنٹری میں کمیشن حاصل کیا۔ یہ وہ دور تھا جب دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی۔ انڈین فورسز کو مشرق وسطیٰ میں جنگ پر بھیجا گیا تو ان میں یحییٰ خان بھی شامل تھا۔ اسکی یونٹ شمالی افریقہ میں لڑی۔1942 میںیحییٰ خان جنگی قیدی بن گیا اور اسے بہت سے دیگر ہندوستانی آفیسرز کے ساتھ ’’اورسا‘‘ کیمپ اٹلی بھیج دیا گیا۔ اس دور میں افریقن ٹروپس بھی انگریزی فوج کا حصہ تھے لہٰذا جنوبی افریقہ کے سینئر جنگی قیدی کرنل پاگسے کو کیمپ کمانڈنٹ مقرر کر دیا گیا۔ یحییٰ خان واحد انڈین آفیسر تھا جو اٹالین بھی جانتا تھا ۔ کرنل پاگسے نے اسے کیمپ ایجوٹنٹ بنا دیا۔ شروع شروع میں تو اطالویوں نے نفسیاتی طور پر جنوبی افریقین اور ہندوستانی ٹروپس کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی مگر یحییٰ خان کی کوششوں سے اطالوی اپنی منصوبہ بندی میں کامیاب نہ ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب آہستہ آہستہ تحریک پاکستان زور پکڑ رہی تھی جس کی خبریں کسی نہ کسی طرح کیمپ میں مسلمان آفیسرز تک بھی پہنچ رہی تھیں۔ اب اطالویوں نے ہندوستانی ٹروپس کو آزادی کے نام پر انگریزوں کے خلاف کرنے کی کوشش کی۔ اس دور میں سبھاش چندرا بوس کی انڈین نیشنل آرمی کی کاروائیاں انگریزوں کے خلاف بڑی مقبولیت حاصل کر رہی تھیں۔ اطالویوں نے اسے بلوا کر انڈین ٹروپس سے خطاب کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ہندو آفیسرز تو بڑے خوش ہوئے لیکن مسلمان آفیسرز خصوصاً یحییٰ خان نے سخت مخالفت کی۔ اس ناراضگی پر کیپٹن ناراونے نے ایک دن غصے سے پاکستان کو برا بھلا کہا۔ کیپٹن یحییٰ پاس تھا۔ اس نے زور سے اسکے منہ پر تھپڑ دے مارا۔ یہ پاکستان کی حفاظت کی پہلی جنگ تھی۔ فوج میں کسی آفیسر کے منہ پر تھپڑ مارنا بہت بڑا جرم ہے جس کی سزا کورٹ مارشل ہے۔ مگر یحییٰ خان نے بغیر نتائج کی پرواہ کئے پاکستان کے نام کی حفاظت کی۔
بعد میں بھارت کے مشہور جرنیل پرتاب نارائن نے اپنی کتاب" "Subedar to Field Marshalمیں یہ واقعہ درج کرتے ہوئے لکھا ہے ۔
"It is worth considering whether this camp was the real birth place of Pakistan "یحییٰ خان پیشہ ورانہ طور پر بہت اچھا آفیسر تھا ۔1947میں یہ واحد مسلمان آفیسر تھا جسے سٹاف کالج کوئٹہ میں بطور انسپیکٹر پوسٹ کیا گیا۔تقسیم ہند کے وقت ہندو آفیسر ز نے سٹاف کالج کی کتب بھارت لے جانے کی منصوبہ بندی کی۔یحٰی خان کو بھنک پڑ گئی تو یہ سد راہ بن گیا۔اس نے مسلمان سولجرز کو ساتھ ملا کر لائبریری کتب کی حفاظت کی۔ہندو آفیسرز نے کتب رات کو چرانے کی کوشش کی تو یحییٰ خان اس خطرے کے پیش نظر رات کو ہتھیار لے کر لائبریری میں سوتا تھا۔اس نے ایک کتاب تک بھارت نہ جانے دی۔پاکستان بننے کے بعد اس نے فوج کے لئے بہت کام کیا۔فوج کی تنظیم نو انہی کا کارنامہ ہے۔مگر افسوس کہ شراب ، عورتیں اور بھٹو صاحب پر اندھا اعتماد اسے لے ڈوبے۔