جارج آرول ایک مشہور برطانوی لکھاری تھا ۔ جب اس کا ملک ہمارے خطے میں سامراج کی حیثیت میں مسلط تھا تو پولیس میں بھرتی ہوگیا۔برما میں تعیناتی کے دوران اس نے ان تمام ہتھکنڈوں کو خوب سمجھ لیا جو محکوم انسانوں کی جبلت کو ’’خوئے غلامی‘‘ میں بدل دیتے ہیں۔اس سے اداس ہوکر مستعفی ہوگیا۔برطانیہ لوٹ کر اپنی عمر کا بیشتر حصہ کانوں سے کوئلہ نکالنے والے مزدوروں اور کچی بستیوں میں آباد غریبوں کے مابین صرف کیا۔معاشی اعتبار سے پست ترین طبقات کے درمیان اپنے دن گزارتے ہوئے وہ ہمیشہ حیران ہوتا رہا کہ عام برطانوی خواہ وہ امیر ہو یا غریب اجتماعی طورپر خود کو ایک ’’طاقت ور قوم‘‘ کا رکن سمجھتے ہوئے بہت فخر محسوس کرتا ہے۔برطانوی ایمپائر کی یہ شہرت کہ وہاں’’سورج کبھی غروب نہیں ہوتا‘‘اسے فاخرانہ گماں میں مبتلا رکھتی ہے۔ ’’ذلتوں کے مارے‘‘ طبقات کے درمیان رہتے ہوئے وہ حکمرانوں کی اس مکارانہ حکمت عملی کے کلیدی اصول تلاش کرنا شروع ہوگیا جو ان کی ’’رعایا‘‘ کو خوش گماں بنائے رکھتی ہے۔
ہمارے ’’ترقی پسندوں‘‘کی اکثریت مذکورہ ناول نگار کو ’’رجعت پسند‘‘ ٹھہراتی رہی۔وہ مصر رہے کہ انسانوں کی جبلت میں موجود ’’خوئے غلامی‘‘ کو اجاگر کرتے ہوئے آرول درحقیقت مایوسی پھیلارہا ہے۔ انسانوں کو قائل کررہا ہے کہ غلامی ان کا ’’مقدر ‘‘ہے۔ اسے بدلا نہیں جاسکتا۔ بدترین تنقید کے باوجود آرول مرتے دم تک مگر اپنے نظریات پر ڈٹا رہا۔ پے در پے اس نے دو ناول بھی لکھے جو مصر رہے کہ دنیا بھر کی ریاستیں ہٹلر کی تمام تر مذمت کے باوجود اپنے ہاں بھی نازی ازم جیسا نظام چاہتی ہیں۔وہ نظام جہاں ہر شہری اسی طرح سوچے جیسے ریاست سوچتی ہے۔اسی تناظر میں اس نے "Big Boss"کی اصطلاح بھی متعارف کروائی تھی جو درحقیقت ایسے جابر آمر کی نشاندہی کرتی ہے جو اپنے ہر شہری پر کڑی نگاہ رکھنا چاہتا ہے۔اس امر کو بے چین کہ ان کے ذہنوں میں ابھرے خیالات کا بھی پتہ لگالے۔ اس ضمن میں اس کا ایک ناول "1984"کئی بار شائع ہوچکا ہے۔
انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد یہ ناول مقبول سے مقبول تر ہورہا ہے۔موبائل فونز کے فروغ نے اس کی سوچ کو بلکہ سچا ثابت کردیا کیونکہ ہمارے ہاتھ میں جو فون ہے اورجس کی بابت ہم بہت اِتراتے ہیں درحقیقت ہمارے حکمرانوں کو فقط ہماری نقل وحرکت ہی کا پتہ نہیں دیتا۔موبائل فون پر کڑی نگاہ ریاست کو یہ ’’خبر‘‘ بھی فراہم کردیتی ہے کہ اس فون کو استعمال کرنے والا کونسا لباس خریدنا پسند کرتا ہے۔اسے کونسا کھانا مرغوب ہے۔اس کی روزمرہّ زندگی کیسی ہے۔یہ سب معلومات یا ڈیٹا جان لینے کے بعد ریاستی اداروں کے لئے لوگوں کی ’’ذہن سازی‘‘ مزید آسان ہوگئی ہے۔
آرول کے متعارف کردہ تمام تر خیالات اخبار کے لئے لکھے کالم میں سموئے نہیں جاسکتے۔گزشتہ چند دنوں سے مگر ہمارے ہاں سری لنکا کا جو چرچا ہے اس نے مجھے اس کی ایجاد کردہ ایک اور ترکیب یاد دلادی۔وہ ترکیب تھی Transferred Nationalism۔میں اس کا اردو متبادل تلاش کرنے سے قاصر ہوں۔سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ اگر کسی ملک کے عوام اپنے ہاں موجود حقائق سے اکتا جائیں تو وہ کسی ایسے ملک کی اندھی عقیدت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جہاں ان کے مطابق ’’مثالی‘‘ زندگی گزاری جارہی ہے۔ ہمارے ہاں کئی برسوں سے مثال کے طورپر ہمارے یار چین کا ذکر بھی اسی حوالے سے ہوتا ہے۔اگرچہ حبیب جالبؔ کے ’’مشیر‘‘ نے ’’دیدہ ور‘‘ کو سمجھادیا تھا کہ :’’چین اپنا یار ہے۔اس پہ جان نثار ہے۔اس طرف ہے جو نظام۔اس طرف نہ جائیو۔اس کو دور سے سلام‘‘۔ اس کے علاوہ وطن عزیز کو جرائم سے پاک کرنے کے خواہش مند ہمارے ہاں سعودی عرب جیسی تلخ سزائیں متعارف کرنے کو بھی بے چین رہتے ہیں۔ملاعمر کے طالبان کی بابت بھی ہماری عقیدت Transferred Nationalismہی کا اظہار تھا۔
سری لنکا میں ویسی خوش حالی یا یقینی امن وامان ان دنوں میسر نہیں جو چین یا سعودی عرب سے مختص ہیں۔ ہم درحقیقت اس ملک میں نمودار ہوئے حالیہ واقعات سے خوش ہورہے ہیں۔ غربت اور بدحالی سے بپھرے عوام نے جب وہاں کے ایوان صدر پر دھاوا بول کر وہاں مقیم صدر کو بھاگ جانے کو مجبور کیا تو ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر حاوی ’’ذہن سازوں‘‘ کے دل بھی شاد ہوگئے۔سری لنکا کے ایوان صدر پر ہوئے ’’عوامی قبضے‘‘ کی تصویریں خوشی سے دیوانہ ہوتے ہوئے فیس بک اور ٹویٹر پر پوسٹ کرنا شروع ہوگئے۔
عمران خان صاحب اور ان کی جماعت بھی سری لنکا میں رونما ہوئے حالیہ واقعات کا تواتر سے ذکر کرتے ہوئے ’’نیوٹرلز‘‘ کو خبردار کررہی ہے کہ پنجاب میں 17جولائی کو ہونے والے صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے دوران تحریک انصاف کو ’’دھاندلی‘‘ کی بدولت اکثریت سے محروم رکھنے کی کوشش ہوئی تو پاکستان میں بھی سری لنکا جیسے مناظر رونما ہوں گے۔ سری لنکا کا فخر سے ذکر کرتے ہوئے مگر ہمارے ’’ذہن ساز‘‘ پاکستانیوں کو یہ بتانا گوارہ ہی نہیں کررہے کہ وہ کونسے حقائق تھے جنہوں نے بالآخر سری لنکا کو اس مقام تک پہنچایا۔
پیشہ وارانہ فرائض کی بدولت 1990کی دہائی سے کئی بار مجھے اس ملک جانے کا موقعہ ملا ہے۔کئی عالمی این جی اوز بھی صحافیوں کے کنونشن یا ورکشاپ وغیرہ کااہتمام کرتے ہوئے اس ملک کو ترجیح دیتی تھیں۔ایسے Eventsمیں بھی کئی بار شریک ہوا ہوں۔سری لنکا ایک خوب صورت جزیرہ ہے۔اس کی تاریخ کافی قدیم ہے۔ وہاں کے اصل باشندے یا Sons of Soilسنہالی قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ بدھ از م کے کٹر پیروکاربھی ہیں۔سری لنکا پر قبضے کے بعد برطانیہ نے مگر وہاں تاملوں کو آباد کرنا شروع کردیا۔انہیں بنیادی طورپر ربڑاور چائے کی کاشت کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔تامل بتدریج مگر تعلیم کی جانب مائل ہوئے اور بالآخر زیادہ تر سرکاری ملازمتیں ان کے ’’قبضے‘‘ میں آگئیں۔ تاملوں کی اکثریت ہندو ہے اگرچہ ان کی مؤثر تعداد مسیحی مذہب بھی اختیار کرچکی ہے۔اس کے علاوہ سری لنکا میں جو مسلمان آباد ہیں ان کے اجداد بنیادی طورپر عرب تاجر تھے جو جنوبی بھارت کے ساحلی شہروںمیں آباد ہونے کے بعد سری لنکا منتقل ہوگئے تھے جسے ماضی میں ’’سیلون‘‘ پکارا جاتا تھا۔
برطانیہ سے آزاد ہوجانے کے بعد سری لنکا کے سنہالی سیاستدان اس جنون میں مبتلا ہوگئے کہ ان کے ملک کی واحد پہچان ’’سنہالی ملک‘‘کے طورپر ہواور ’’بدھ ازم‘‘ وہاں کا واحد مذہب مانا جائے۔ یہ ویسا ہی جنون تھا جو ٹرمپ جیسے نسل پرست امریکہ پر مسلط کرنا چاہ رہے ہیں۔ کثیر تعداد میں آباد تاملوں کو مگر ’’غلام‘‘ بنانا ممکن نہیں تھا۔ان کی جانب سے بھرپور مزاحمت ہوئی۔ انہوں نے اپنے ’’آزاد‘‘ خطے بھی بنالئے۔’’تامل ٹائیگر‘‘ نامی تنظیم کھڑی کی جس نے جنوبی ایشیاء میں پہلی بار خودکش بمباری کو ہتھیار کی صورت استعمال کیا۔
سنہالیوں اور تاملوں کے مابین طویل عرصے تک جاری رہی خانہ جنگی نے بالآخر راجہ پکسیاکو اپنے ملک کے ’’دیدہ ور‘‘ کی صورت اجاگر کیا۔تعلق اس کا فوجی خاندان سے تھا۔ اس نے نہایت سفاکی سے تاملوں کو وحشیانہ بمباری اور ریاستی جبر کے بھرپور استعمال کے ذریعے ان کی ’’اوقات‘‘ میں لوٹا دیا۔سنہالی اکثریت کے لئے اس کی بدولت ’’ہیرو‘‘ ثابت ہوجانے کے بعد وہ اور اس کا خاندان 2009سے وہاں کا طاقت ور ترین حکمران خاندان بن گیا۔پکسیابھائیوں نے آپس میں کئی ریاستی عہدے بھی بانٹ لئے۔
بھاری بھر کم اکثریت سے ’’منتخب‘‘ ہوجانے کے بعد پکسیانے بادشاہوں والا چلن اختیار کرلیا۔اپنے ملک کو ’’جدید تر‘‘ دکھانے کے لئے کئی ایسے ’’میگاپراجیکٹس‘‘ بنانا شروع کردئیے جن کی فی الفور ضرورت نہیں تھی۔وہ مگر بیرونی قرضوں سے ’’تاج محل‘‘ بناتا چلا گیا۔ اس کے علاوہ سری لنکا کے صدر نے مذہب کا ہتھیار بھی نہایت مکاری سے استعمال کیا۔بدھ بھکشوئوں کو تقریباََ ’’سینا‘‘ میں بدل دیا۔ جو دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو نچلے درجے کے انسان بنانے کو تلے رہتے۔ تامل ہندوئوں کے بعد تامل مسیحی ان کا نشانہ بنے۔بالآخر تامل مسلمانوں کو بھی دیوار سے لگانے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔
سری لنکا کے جس ہجوم کی ہم پاکستانی ان دنوں دادوتحسین میں مصروف ہیں وہ اپنے ہاں آباد اقلیتوں کے خلاف ہوئے سفاکانہ سلوک کی بابت قطعاََ خاموش رہے تھے۔انہیں دیوار سے لگانے میں بلکہ بھرپور حصہ بھی ڈالتے رہے۔سری لنکا کا صدر انہیں اس جانب مشغول رکھتے ہوئے من مانیوں میں مصروف رہا۔۔سری لنکا کی اصل آمدنی سیاحت کی وجہ سے ہوتی ہے۔کرونا نے اس صنعت کا بھٹہ بٹھادیا۔اس کے بعد آمدنی کا دوسرا بڑا ذریعہ زراعت تھی۔سری لنکا کے صدر نے مگر یہ فیصلہ کیا کہ وہاں فصلوں کے لئے یوریا کھاد جیسی اشیاء استعمال نہیں ہوں گی۔ہر فصل ’’فطری‘‘ طورپر اُگائی جائے ۔اس کا یہ ڈرامہ بھی ’’ماحولیات‘‘ کی محبت میں شہری متوسط طبقے نے ازحد خوشی سے برداشت کیا۔آمدنی کے دونوں بنیادی ذرائع سے محروم ہوجانے کے بعد سری لنکا اس قابل ہی نہ رہا کہ غیر ملکی قرضوں کی اقساط ادا کرسکے۔ بالآخر دیوالیہ ہوگیا۔دیوالیہ ہونے کے قریب تھاتو روس یوکرین پر حملہ آور ہوگیا جس نے تیل کا بحران کھڑا کردیا۔بے تحاشہ تاریخی سیاسی اور معاشی عوامل کی بنیاد پر سری لنکا میں بالآخر وہ ہوا جو حال ہی میں نمودار ہوا ہے۔سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ سری لنکا کا صدر اور وزیر اعظم تو فارغ ہوگئے۔اب اس ملک کو کون سنبھالے گا۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس بھی موجود نہیں ہے۔پاکستان کو سری لنکا بنانے کے خواہش مند افراد کو تاہم ہمارے وطن کی بابت ابھی سے اس سوال کا جواب ڈھونڈ لینا چاہیے۔
سری لنکا کو اب کون سنبھالے گا
Jul 14, 2022