دو وائس چانسلر صاحبان کے درمیان!

مئی کے اواخر کی بات ہے کہ اچانک علامہ عبدالستار عاصم کا فون آیا کہ فوراًتیا رہوجائیں، میں آپ کو لینے آرہا ہوں ۔ پنجاب یونیورسٹی کے گیسٹ ہائوس میں اہل علم کی ایک زبردست مجلس جاری ہے ۔ ہم بھاگم بھاگ وہاں پہنچے ،دن بھر کی گرمی کے بعد شام کو بڑی خنک اور یخ ہوا کے جھونکے چل رہے تھے۔ جسم وجاں میں بڑی راحت محسوس ہوئی ۔ مہمان خانے کا ڈرائنگ روم مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ پہلے توایک دوسرے سے تعارفی رسم اداہوئی،پھر پروفیسر ڈاکٹرمظہر سلیم اسی روز عمرہ کا فریضہ اداکرنے کے بعد واپس آئے تھے، پتہ چلا کہ وہ آج کل پنجاب یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ہیں ، دوسرے مہمان پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر تھے، جوپنجاب کے دور افتادہ قصبے رحیم یارخان میں قائم خواجہ فرید یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے، میرے ساتھ علامہ عاصم کے علاوہ لمز کا نوجوان طالبعلم عمر نعیم بھی تھا۔ جس نے ساری گفتگو میں بڑی دلچسپی اور سرگرمی کا اظہار کیا۔ باتیں بھی چل رہی تھیں، کھانے کی پلیٹیں بھی سج رہی تھیں۔ 
گفتگو کے آغاز میں اس نکتے پر بحث ہوئی کہ طلبہ و طالبات کس طرح کی پڑھائی کی طرف مائل ہیں، پروفیسر ڈاکٹر مظہرسلیم نے کہا کہ طالبات زیادہ تر میڈیکل کے شعبہ میں جاتی ہیں ۔ ان کا مقصد اچھا رشتہ تلاش کرنا ہوتا ہے ، ڈاکٹر بننا ان کی ترجیح میں شامل نہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر کی گئی سرمایہ کاری ضائع چلی جاتی ہے ۔ ڈاکٹر مظہر سلیم بولے کہ میں نے لڑکیوں کو بامقصد تعلیم دلانے کا تہیہ کررکھا ہے ۔ جو طالبات بھی انجینئرنگ کے شعبے میں جائیں ،ان کو سوفیصد سکالر شپ دیا جاتا ہے ۔ میرا مطمح نظر یہ ہے کہ قوم کی ہونہار بیٹیاں ملک کی تعمیروترقی میں اپنا مفید کردار اداکرسکیں۔ انجینئرنگ کی ملازمت میں وہ بھاگ دوڑ نہیں ہوتی ، جو ایک لیڈی ڈاکٹر کو کرنا پڑتی ہے ۔ وہ زیادہ تر ڈیسک ورک میں مصروف ہوجاتی ہیں اور دفاتر کے آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر اپنا فرض منصبی اداکرسکتی ہیں۔ بڑے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر سے لے کر چھوٹے بڑے کارخانوں کی منصوبہ بندی ان کے لئے نسبتاًقدرے آسان عمل ہے۔ عمر نعیم نے بھی گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ لمز میں ملا جلا رحجان ہے ۔ بہت کم طالبات انجینئرنگ کے شعبے کا رخ کرتی ہیں۔ زیادہ تر آئی ٹی کے شعبے کا انتخاب کرتی ہیں ۔ یہ آج کے دور کا ابھرتا ہوا شعبہ ہے جو دنیا بھر میں تیزی سے ترقی پذیر ہے ۔ کیلے فورنیا کی سیلی کون ویلی سے لے کر بھارتی شہر بنگلور تک آئی ٹی کا طوطی بول رہا ہے ۔ پاکستان میں بھی لاکھوں طلباء و طالبات گھروں میں بیٹھے آن لائن کام کرتے ہیں اور ملک کیلئے اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ کمانے میں اہم ذریعہ ثابت ہوتے ہیں ۔ 
ڈاکٹر مظہر سلیم کو عمرہ مبارک کے بار بار فون آرہے تھے۔ وہ کمرے کے باہر آتے جاتے رہے اور موقع ملنے پر گفتگو میں شریک ہوجاتے۔ میں نے ایک نکتہ اٹھایا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں منشیات کی وبا عام ہورہی ہے ، جو کہ معاشرے کی مجموعی خرابی کا حصہ ہے ۔ اس پر ڈاکٹر سلیمان طاہر نے کہا کہ انہوں نے اپنے کیمپس میں بہت سخت قانون نافذ کررکھا ہے کہ کیمپس کی چار دیواری میں کوئی شخص سگریٹ نوشی نہیں کرسکتا ۔نہ کوئی پروفیسر، نہ طلباء و طالبات ،نہ کسی سٹاف ممبر کو سگریٹ نوشی کی اجازت ہے ۔ہم نے تو یہ احتیاط بھی برتی ہے کہ یونیورسٹی کے بیرونی دروازوں پر موجود کسی کھوکھے پر بھی سگریٹ فروشی نہ ہو۔ اس لئے الحمدللہ خواجہ فرید یونیورسٹی ہر قسم کی منشیات کی لعنت سے پاک ،صاف ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی یونیورسٹی انتہائی پسماندہ علاقے میں واقع ہے ، جہاں اعلیٰ تعلیم کی سہولتوں کا فقدان ہے ۔ طلبہ و طالبات بلاشبہ ذہانت کی دولت سے مالامال ہیں، تاہم وہ حصول علم کے اخراجات کیلئے مال و دولت سے محروم ہیں۔ لہٰذا ہم نے میرٹ کی بنیاد پر پانچ ہزار طلبہ و طالبات کو وظیفہ دینے کی اسکیم رائج کی ہے ۔ یہ وظائف انجیئنرنگ میں داخلہ لینے والی طالبات کے اسکالر شپ سے الگ ہیں ۔ 
چند برس قبل جب میاں شہبازشریف کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں اس یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تھا ، تویونیورسٹی کی عمارت میں صرف آٹھ ہزار طلبہ و طالبات کے داخلے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ مگر تعلیم میں بچوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے پیش نظر یہ تعداد چند برسوں میں بڑھ کر سترہ ہزار تک پہنچ گئی ہے ۔ ہمارا اندازہ ہے کہ آنے والے چند برسوں میں مزید آٹھ ہزار طلبہ و طالبات یونیورسٹی میں داخلوں کیلئے رجوع کریں گے ۔ جس کے لئے موجودہ کیمپس بالکل ناکافی ہے ۔ پہلے ہی کلاس رومز بھرچکے ہیں۔ اس لئے یونیورسٹی کے نئے تدریسی بلاک میں توسیع کیلئے مزید اراضی کے حصول کا منصوبہ بنایا گیا ہے ۔ جس کیلئے مختلف سطحوں پر کوششیں جاری ہیں۔ کبھی امید کی کرن روشن ہوجاتی ہے ، اور کبھی مایوسی کے اندھیرے چھاجاتے ہیں ۔ 
ڈاکٹرمظہر سلیم نے بتایا کہ پنجاب یونیورسٹی تو ایک مہنگا ادارہ ہے ۔ نہر کے ایک طرف تدریسی بلاکس کا جھمگھٹا ہے، تو دوسری طرف ہوسٹلزکا جال پھیلا ہوا ہے ۔ اتنے بڑے ادارے کے انتظامی امور سنبھالنا بڑے دل گردے کا کام ہے ۔ تاہم پھر بھی ہم الحمدللہ اپنے مشن میں کامیاب ہیں ۔ اساتذہ کی لگن ،طلبہ و طالبات کی عرق ریزی سے ہم نے اپنے نتائج کی شرح برقرار رکھی ہے ، ڈاکٹر سلیمان طاہر نے کہا کہ ہم آپ کے سامنے طفل ِ مکتب ہیں ، تاہم شبانہ روز محنت سے خواجہ فرید یونیورسٹی نے علاقے میں اپنا نام خاصاکمالیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ یونیورسٹی کو ایک فیملی کی طرح چلاتے ہیں ، طلبہ و طالبات کو اپنی اولاد کا درجہ دیتے ہیں۔ جس سے یونیورسٹی کا ماحول انتہائی خوشگوار ہے ۔ یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ اس سال چولستان میں بارشیں بالکل نہیں ہوئیں،ایک قحط کی کیفیت ہے ، ہم نے وہاں صاف پانی کی سپلائی کیلئے آب فرید کا منصوبہ تیار کیا۔چولستان کے پیاسے لوگوں کو صاف میٹھے پانی کی فراہمی کیلئے طلبہ و طالبات نے سرگرمی سے کردار ادا کیا حتیٰ کہ جانوروں کے پانی پلانے کیلئے بھی ٹینکروں کا بندوبست کیا گیا ۔ یہ سارا پراجیکٹ اپریل اور مئی کی چلچلاتی دھوپ میں جاری رکھا گیا ۔ مگر کیامجال کہ کسی طالبعلم کے ماتھے پر شکن بھی آئی ہو۔ 
انسانیت کی فلاح کا یہ جذبہ اگر پوری نوجوان نسل میں بھردیا جائے تو وہ آگے چل کر عمر بھر خدمت خلق اورملکی تعمیروترقی کے جذبوں سے موجزن رہیں گے۔ 
رات ہو چکی تھی ،پونے ایک کا عالم تھا ،میں نے نوجوان طالب علم عمر نعیم سے کہا کہ کیاوہ کوئی آخری نکتہ اٹھانا چاہیں گے۔عمر نعیم نے کہا کہ نئی اور پرانی نسل کے درمیان ہمیشہ سے ایک گیپ چلا آرہا ہے ،اسے پر کرنے کی ضرورت ہے ۔خاص طور پر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پروفیسر اور طلباء کے درمیان دوستی کا رشتہ قائم ہونا چاہئے تاکہ وہ ایک دوسرے کے دماغ میں جھانک سکیں ۔
میں نے رخصت طلب کرنے سے پہلے فاضل وائس چانسلر کے سامنے ایک نکتہ بیان کیا کہ ہم نے ڈیٹا رکھنے کے لیے کلائوڈ تو ایجاد کرلیا لیکن اس میں کسی ڈیوائس کی ضرورت پڑتی ہے ۔ کیا آپ لوگ اپنے طلباء سے کہہ کر اس تجربے کو کامیاب نہیں بنا سکتے کہ یہ کلائوڈ خلا میں تخلیق کیا جائے اور ہم گوگل اور دوسرے اداروں کی غلامی کے چنگل سے نجات پا سکیں ۔میرا سوال وزنی بھی تھا،پیچیدہ بھی تھا اور تحقیق طلب بھی ،میں چاہتا ہوں کہ عمر کے اس حصے میں ،میں یہ تجربہ بھی کر ڈالوں لیکن مجھے اس کے لیے آئی ٹی ماہرین کے تعاون کی ضرورت ہے ۔

ای پیپر دی نیشن